ہر روز کی طرح آج بھی سبزی بازار میں بڑی
گہما گہمی تھی عورتیں اور مرد ٹوکریاں اور تھیلے اُٹھائے انوع واقسام کے کپڑوں میں
ملبوس سبزیاں خریدنے میں مصروف تھے اِدھر سبزی والے دُوکاندار بھی گاہکوںکو اپنی طرف
متوجہ کرنے کے لئے طرح طرح کی آوازیں کس رہے تھے کسی نے اپنی دُوکان پر آلووں کوہیرو
بنا کر ٹوکری میں قطار ااندر قطار سجا کے رکھا ہو اتھااور کوئی اپنی دُوکان میں دوسری
سبزیاں دِکھا کر گاہکوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔کوئی دُوکاندار اپنے کام
والے لڑکوں کو کوس رہا تھا پوستیو رات بھر کہاں آوارہ پھرتے ہو جو صُبح بھی تمہاری
آنکھیں نہیں کُھل رہی ؟چلو جلدی سے سبزی دھو کر ترتیب سے لگائو !گاہکوں کا ہجوم لگ
گیا ہے بازار میں اور تم سے ابھی تک سبزیاں ترتیب سے نہیں لگی! ہم نے کر لی دُوکانداری
جاہلو جلدی کرو۔
ہر طرف سے سبزیوں کے بھائو سنائی دے رہے
تھے بھنڈی ساٹھ روپی،تازہ ٹماٹر پچاس روپی،اروی چالیس روپے دیسی ٹینڈے ساٹھ روپے کِلو
کئی لوگوں نے تو اتنے شاپنگ بیگ اُٹھا رکھے تھے کہ ٹھیک سے چلنا مشکل ہو رہا تھا۔سا
ئیکلوں ،سکوٹروں اور کاروں والے اپنی اپنی حیثیت اور ضرروت کے مطابق سبزیاں خریدنے
میں مصروف تھے۔
ہر کسی کو جلدی تھی کہ دُوکاندار
پہلے اُسے سبزی دے ۔کئی دوکانوں پر گاہکوں کی لڑائی ہو رہی تھی۔’’... نظر نہیںآتا؟
اندھوں کی طرح چلے جا رہے ہو میری قیمتی جوتی کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہی..‘‘ دُوکانداربیچ
میں صلح کراتے ہوئے اپنی سبزی کے بھائو بھی بتاتا جا رہا تھا۔
’’.. اُو
چلیں بھائی صاحب جانے دیں صبح صبح کا ٹائم
ہے ۔چھوڑیں لڑائی کو انہوں نے کوئی جان بوجھ کر تو نہیں کیا ہوگا، بس جلدی میں آپ کے
پائوں پر پائوں پڑ گیا ہو گا۔ خیر! آلو چالیس روپے ہیں۔پانچ کلو کر دوں کیا؟‘‘
جس کے پائوں میں تکلیف تھی۔ بھُنا کر بولا
’’.. کیا میں نے گھر کے آگے دوکان لگانی ہے جو پانچ کلو لے لوں ؟بس ایک کلو کر دو۔‘‘
دُوکاندار کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے ’’جیسے جناب کا حکم‘‘
چائے والے اپنی چائے سے دُوکانداروں کو
چُست کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ’’ابے اُو کریمو ہاف سیٹ چائے کا بولا تھا دوگھنٹے ہو
گئے تیری چائے نہ آئی‘‘ ’’بس اُستاد! ابھی
بھیجتا ہوں لڑکے کو، بس سمجھو میں گیا، تو وہ آیا‘‘
چاچا رحمت بھی اپنی دُوکان میں بیٹھا گاہکوں
کا منتظر تھا ۔چاچا رحمت کا رشتہ اِس سبزی بازار سے پچاس سال پرانا تھا۔جب وہ ابھی
لڑکا ہی تھا۔تب سے اپنے باپ کے ساتھ سبزی کے اس کاروبار میں شریک ہوا تھا۔ وقت کیسے
گزر گیا پتہ ہی نہ چلا کہ وہ اپنے باپ کی جگہ پر آ بیٹھا بال سفید ہو گئے اور آنکھوں
پر نظر کا چشمہ سج گیا۔سبزی بازارکے سب دُوکاندار چاچا رحمت کی بات مانتے تھے اور بڑی
عزت کرتے تھے ۔ چاچا رحمت تھا بھی بڑا اچھا بندہ سب سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتا
تھا۔ اُسے کبھی کسی نے گالی دیتے نہیں سُنا تھا ۔دوکان پر سب لڑکے بھی چاچا رحمت کی
دل سے عزت کرتے تھے اور اُس کے آنے سے پہلے ہی دوکان میں سبزیاں ترتیب سے رکھ لیتے
تھے اور گاہکی شروع کر لیتے تھے۔ چاچارحمت نے آکر بس دوکان پر بیٹھنا ہوتا تھااور اخبار
پڑھ کر ساتھ والی دوکان کے لوگوں کو نِت نئی
خبروں سے آگاہ کرناہوتا تھا ۔
سبزی بازار میں ہر روز ایسی ہی گہما گہمی
اور ہلچل رہتی تھی ۔پھر جیسے جیسے دن ڈھلتا لوگوں کے ہجوم میں بھی کمی ہوتی جاتی اور
پھر رات میں سب دُوکاندار اپنی دُوکانیں بند کر کے اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے اور
یوں سبزی بازار میں ہر طرف اُداسی چھا جاتی۔ دن بھر کے شور شرابے کے بعد اب ایسا سناٹا
ہو جاتا جیسے یہاں عرصہ سے کوئی نہ آیا ہو۔ شہر سے دُور ہونے کی وجہ سے ٹریفک کا شور
بھی نہ ہونے کے برابر تھا بس کبھی کبھار کوئی کُتا پھونکتا یا دُور سے کسی گاڑی کا
ہارن سُنائی دیتا تو خاموشی کا سحر ٹوٹتا سا را دن انسانوں کی باتیںسُننے کے بعد اب
وقت تھا کہ سبزیاں آپس میں بات کریں۔
چاچا رحمت کی دُوکان میں سب خاموشی سے
اپنی اپنی ٹوکریوں میں پڑے تھے۔ بالآخر پیاز نے گلا صاف کرتے ہوئے خاموشی کی گرِہ کھولی
’’آج تو دُوکان میں بڑی گرمی ہے دم گُھٹ رہا ہے
...‘‘
’’حبس
اور گرمی کا موسم ہے تو گرمی ہی پڑے گی اور کیا کورا پڑے گا؟ ‘‘ ساتھ والی ٹوکری سے
ٹماٹر نے اُونچی آواز میں جواب دیا۔
’’ یار
ٹماٹر ایک تو سارا دن دُوکاندار کی آوازیں سُن سُن کر کان سُن ہو جاتے ہیں اُوپرسے
تم رات کو اُونچا بول بول کر کانوں کے پردے ہلا دیتے ہو..
ٹماٹر نے پیاز کو دیکھ کر بُرا سا منہ
بنا لیا سب ٹکریوں سے ہنسنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ ’’آج خوب مزہ آنے والا
ہے کیونکہ آغازہی بڑا دھواں دار ہوا ہے ...‘‘دھنیئے نے دبی آواز میں شگوفہ چھوڑا ایک
مرتبہ پھر سب کی ہنسی چُھوٹ گئی ۔پھر سب ایک دوسرے کو یہ بتانے لگے کہ وہ کن کن علاقوں
سے آئے ہیں اور کس طرح یہاں پہنچے ہیں۔
’’دیکھو بھئی! رات کا تو پتہ
ہی نہیں چلتااس لئے ضروری ہے کہ اب ہم سب وقت کی قدر کرتے ہوئے غیر ضروری باتوں سے
اِجتناب کرتے ہوئے وقت کو موزوں گفتگو میں صرف کریں..‘‘ کریلے نے اُونچی آواز سے سب
کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔’’ہماری باتیں ایسی ہونی چاہئیں، جس سے دوسروں کو فائدہ ہو
اور غیر معیاری طریقہِ گفتگو میری نظر میں وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ بھی نہیںوقت خدا
کی طرف سے ایک نعمت ہے اور جو کوئی بھی اسے صحیح طریقے سے استعمال کرتا ہے سُکھی رہتا
ہے تم کیا کہتے ہو دوستو؟‘‘ کریلے کی بات معقول تھی سب نے اِس کی تائید کرتے ہوئے کہا
کہ’’ تم نے ٹھیک کہا بات بالکل ایسے ہی ہے ۔‘‘
’’تو پھر ایسا کرتے ہیں کہ سوالات
کے ذریعے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں اور جس کے ذہن میں مناسب جواب ہو وہ ضرور اپنے خیال
کا اظہار کری.. ‘‘
ایک مرتبہ پھر سب نے کریلے کے اِس خیال
کو سراہتے ہوئے تائید کی ۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بینگن نے کہا کہ’’ میرے ذہن میں
ایک سوال ہی! ‘‘ سب کا دھیان اب بینگن کی طرف تھا کہ وہ کیا سوال کرتا ہے۔ ’’کیا آپ
میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ صاف کہوں مُجھے تو لگتا ہے
میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے بہت کم لوگ مجھے پسند کرتے ہیں اور بچوں میں تو میری
مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہی‘‘ بینگن کے لہجے میں افسُردگی تھی۔’’ اگر آپ میں سے کوئی
بتا سکے تو ضرور بتائے۔‘‘ پھر حلوہ کدو جو اب تک کی گفتگو میں بالکل خاموش بیٹھا تھا
یوں گویا ہوا ۔
’’ بینگن
میاں! تم نے توایک ہی سوال میں زندگی کی کئی پیچدگیوں کو سمو دیا ہے مجھے تمہارا سوال
سُن کر خوشی ہوئی ہے ۔اِس کائنات کو خدا نے خلق کیا ہے اور اُس کی تخلیق کا بہترین
شاہکار انسان ہیں ۔انسان کو اُس نے اپنی عبادت کرنے کے لئے بنایا ہے اور حیران کُن
بات تو یہ ہے کہ سب انسان شکل وصورت عادات اور طور طریقوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف
ہوتے ہیں ۔تم نے آج صبح سے شام تک اِس بازار میں آنے والے انسانوں میں اس فرق کو صاف
طور سے دیکھا اور محسوس کیا ہوگا۔ کوئی کالا، کوئی گورا، کوئی لمبا، کوئی درمیانے قد
کا، کوئی دُبلا، تو کوئی مضبوط جسم کا مالک تھا... اُنکی آوازیں بھی ایک دوسرے سے مختلف
تھیں (سب خاموشی سے سُن رہے تھے کہ آخر حلوہ کدو بینگن کو کیا جواب دے گا)جیسا کہ میں
نے پہلے عرض کی کہ انسان خدا کی بہترین تخلیق ہے اور خدا نے اُسے اپنی تمام تخلیقات
پر حاکم مقرر کیا ہی...اب رہا یہ سوال کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہی؟ تو بھائی ہمیں
اس لئے بنایا گیا ہے کہ ہم انسانوں کو اپنے ذائقہ سے خوش کریں اور ان کے جسم کی نشوونما
اور تقویت کا باعث بنیں۔ اب جس طرح انسانوں میں ہر انسان کی مختلف صورت عادات اور خصوصیات
ہوتی ہیں اِسی طرح ہماری بھی مختلف صورتیں اور مختلف خصوصیا ت ہیں۔ ہم سب اپنے آپ میں
یکتا اور لاثانی ہیں شاید تم سمجھتے ہو کہ میرا رنگ کالا ہے اور میں دوسری سبزیوں سے
کمتر ہوں ایسا بالکل نہیں ہے۔ دیکھو اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے کہ تمہارا رنگ
ہم سے کافی مختلف ہے یہ خدا کا ارادہ تھا کہ تمہیں ایسا ہونا چاہیے سو تم ایسے ہو کیونکہ
خداچاہتا تھا کہ تم ایسے دِکھو جو خصوصیات تم میں ہیں وہ ہم میں سے کسی میںنہیں ہیں
تم ہم سے نا صرف مختلف ہو بلکہ اپنی انوکھی اور علیحدہ پہچان کے مالک ہو۔ اور رہی یہ
بات کہ کوئی تمہیں پسند نہیں کرتا یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔آج صبح ہی ایک خاتون اپنی
سہیلی سے کہہ رہی تھی کہ آج ہم بینگن گوشت بنائیں گے جس دن ہمارے ہاں بینگن بنتے ہیں
ہم سب تو خوب پیٹ بھر کے کھانا کھاتے ہیں۔ کچھ لوگ تمہیں آلووں کے ساتھ پکاتے ہیں اور
تمہارے بھرتے کے تو لوگ دِیوانے ہیں۔ مزدور حضرات بھی ریڑھی والے سے بیسن والا بینگن
ضرور خریدتے اور چٹنی کے ساتھ مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ اگر سچی بات کہوں تو تمہاری
پذیرائی مُجھ سے کہیں زیادہ ہے لیکن مُجھے اسکی بے پناہ خوشی ہے کہ انسان اپنے کھانوں
میں مُجھ سے زیادہ تمہیں استعمال کرتے ہیں۔ مُجھے تو بس اس بات پہ ناز ہے کہ مُجھے
خدانے بنایا ہے میں اُس کی تخلیق ہوںاور اُس نے مُجھے ایک رنگ اور ذائقہ دیا ہے اب
یہ انسانوں کی پسند ہے کہ وہ مُجھے کھائیں تمہیں یا ہم میں سے کسی کو بھی کیوں دوستوں
ٹھیک کہا میں نی؟..‘‘
واہ واہ واہ کیا بات ہے تمہاری
حلوہ کدوجواب نہیں تمہاری ذہانت کا پھلیوں کے کہنے پر سب نے حلوہ کدو کے لئے زوردار
تالیاں بجائیںجن میں بینگن بھی شامل تھا۔بینگن میاں اب تو تمہیں یہ پتہ چل گیا ہوگا
کہ ہمارے وجود کا کیا مقصد ہے ۔اور تم خود کتنی اہمیت کے حامل ہو پھلیوں نے مسکراتے
ہوئے کہا۔ اب بینگن کے چہرے پر بھی افسردگی کی بجائے مسکراہٹ تھی میں تو بس اتنا کہنا
چاہتا ہوں کہ حلوہ کدو کی ذہانت پر میں بہت خوش ہوں میں اکثر سوچتا تھا کہ حلوہ کدو
اتنا کم گو کیوں ہے ؟لیکن آج احساس ہوا کہ یہ خاموش رہ کر معاملات کو بڑی باریک بینی
سے جانچتا ہے یقینا با موقع بات میں بڑا لطف ہے ۔
’’ میں
حلوہ کدو کاشُکرگزار ہوںکہ اس نے بڑی عمدگی سے میرے سوال کا جواب دیا ہے جس سے میرا
دل بڑا مطمِن ہوا ہے۔ حلوہ کدو تمہارا بُہت شکریہ !‘‘گفتگو کا آغاز اس انداز سے ہوا
تھا کہ ہر کوئی بہت خوش لگ رہا تھا اور ہر کوئی اس نشست سے بہت کچھ سیکھنا چاہتا تھا
۔
اب بھنڈی نے بات کو آگے بڑھایا کہ میں
اس بات سے بہت فکر مند ہوتی ہوں کہ آج کل کے بچوں میں ہماری مقبولیت گزشتہ چند دہائیوں
کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس کی کیا وجہ ہے اور اس کا کیا حل ہی؟سب اپنا
اپنا ذہن دوڑانے لگے بالآخر اس سوال کاجواب دینے کے لئے ٹینڈے نے بیڑہ اُٹھایا۔ ’’
دیکھو دوستو یہ سوال بڑا سنجیدہ ہے کہ بچے سبزیاں کھانا کیوں پسند نہیں کرتے حالانکہ
اُن کی نشوونما کے لیے ہم سب بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اُنہیں وہ تمام وٹامنز
اور غذائیت باہم فراہم کر سکتے ہیں جن کی اُن کے ننھے مُنے جسموں کو ضرورت ہے میں نے
اِس معاملے پر اکیلے میں بُہت غوروخوص کیا ہے اور آج اتفاق سے بھنڈی نے یہ سوال ہم
سب کے سامنے اُٹھایا ہے۔ میرے خیال میں بچوں کی سبزیوں سے دُور رہنے اور ناپسندیدگی
کی اصل وجہ خود والدین ہیں۔ اکثر والدین بچوں کے سامنے اِس بات کا بڑا چرچا کرتے ہیں
کہ ہمیں تو فلاں سبزی بالکل پسند نہیں ہمیں تو فلاں سبزی ذرا اچھی نہیں لگتی اور کئی
ماں باپ تو سِرے سے سبزیوں کے مخالف ہیں وہ صرف گوشت اور برگر شرگر کھانے کو ترجیح
دیتے ہیں۔جب والدین خود سبزیوں کو نہیں کھائیں گے تو بچے کیسے سبزیاں کھائیں گی؟چونکہ
اُن کو ہم سے متعارف ہی نہیں کروایا جاتا اس لئے وہ ہم سے دُور بھاگتے ہیں۔ اور غلطی
سے اگر ماں ہم میں سے کسی کو پکا بھی لے تو بچہ ہمیں مُنہ نہیں لگاتا ایسی مائیں اپنے
بچوں کی صحت کے بارے میں ہمیشہ دوسروں کو یہ بتاتی ہیں کہ ہمارا بچہ کچھ نہیں کھاتا
لیکن وہ یہ نہیں سوچتی کہ بہت سی چیزوں کو میں نے بچے سے متعارف ہی نہیں کرایاوالدین
کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سامنے ہمیں مزے لے لے کر شوق سے کھائیں بچے خود بخود ہمیں پسند
کریں گے ۔سب سے بہترین طریقہ جس کے ذریعے والدین ہمیں استعمال کر سکتے ہیں وہ ہے سلاد
! اب دیکھو نہ گاجر،مولی،سلاد کے پتی،ہری مرچ،چُقندر،لیموں،کھیرا،پیاز،ٹماٹر،اور بند
گوبھی اور ان جیسی اور کئی سبزیاں اپنی اصل حالت یعنی پوری غذائیت کے ساتھ استعمال
کی جا سکتی ہیں یہ ایسا نفع بخش کاروبار ہے جس کا منافع والدین کو اپنے بچوں کی اچھی
صحت کی صورت میں ملتا ہے ۔حالانکہ دُنیا میں شاید ہی کوئی ایسا سلاد ہو جس میں میرا
استعمال (ٹینڈے کا)ہوتا ہو لیکن میں اسی بات سے خوش ہوں کہ میرے دوستوں کی مقبولیت
میں اضافہ ہو کیونکہ آپ سب میرا اور میں آپ کا حصہ ہوں...‘‘
’’ ٹینڈے میاں تمہاری محبت اور
نیک نیتی کے کیا کہنی! اگر یہ جذبہ انسانوں میں بھی ہو تو کوئی کسی کی ٹانگ نہ کھینچے
اور کوئی کسی دوسرے کی ترقی سے نہ جلے ...‘‘ اروی نے چہکتے ہوئے کہا۔
’’چونکہ والدین خود ہماری افادیت
سے بخوبی آگاہ نہیں ہوتے اس لئے وہ اپنے بچوں میں ایسا شعور بیدار نہیں کر پاتے کیونکہ
اگر والدین کو یہ معلوم ہو کہ ہم سب میں خدا نے قوت کا کیسا خزانہ چُھپا رکھا ہے تو
وہ کبھی بھی اپنے بچوں کو اس قوت بھرے خزانے سے دُور نہ رکھیں..لیکن کئی دفعہ تو والدین
بھی بچوں کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔کیونکہ آج کل کے بچے تو کھاتے ہی کچھ نہیں بچوں
کے مزاج ہی بہت ہیں ۔ہم نے یہ نہیں کھانا، ہم نے وہ نہیں کھانا ایسے میں والدین بھی
تو مجبور ہو جاتے ہیں۔ آخر بچے کو پیٹ بھرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو دینا ہی پڑتا ہی..‘‘
لوکی نے متجسس انداز میں سوال کیا؟
’’ہاں کسی حد تک یہ بات ٹھیک
ہے۔ لیکن میں اس کا ذمہ دار بھی والدین کو ہی ٹھہراؤں گا..‘‘ ٹینڈے نے کچھ سوچتے ہوئے
جواب دیا ۔’’ دیکھو! اِس تیز رفتار دور میں والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ بچوں
پر ِاتنا دھیان دیں ۔ایسے میں دُوکانوں پر رنگا رنگ گولیاں ٹافیاں ہی آسان حل نظر آتی
ہیں جس سے بچے کا دل بھی بہل جاتا ہے اورماں باپ کے سر سے یہ بوجھ بھی اُتر جاتا ہے
کہ بچے کے پیچھے پیچھے جا کر اُسے کھانا کِھلائیں ۔لیکن میری نظر میں والدین کا اپنے
بچوں کے ساتھ ایسا رویہ قابلِ مذمت ہے افسوس تو اِس بات کا ہے کہ زیادہ تر مائیں تو
بچے کو سکول کے لئے جو ٹِفن بنا کر دیتی ہیں اُن میں بھی ذیادہ تر چیزیں بازاری اور
غذائیت کے معاملے میں نا قِص ہوتی ہیں۔میں یہ کہناچاہتا ہوں کہ بچہ بہت سی باتوں کے
لئے ضد کرتا ہے لیکن والدین اُسکی ہر ضد کو پورا نہیں کرتے اِسی طرح اُنہیں چا ہیے
کہ وہ بچوں کو بازار کی چیزیں خرید کر نہ دیں اور نہ ہی بچوں کو پیسے دیں کہ وہ دُوکان
پر جا کر جو کچھ اُن کا دِل کرے خرید لائیں ۔کیونکہ بچہ تو ذیادہ تر رنگوں اور چیزوں
کی چمک دمک سے دھوکا کھا جاتا ہے وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کون سی چیز اُسکے لئے
اچھی ہے اور کون سی چیز اُسکی صحت کے لئے مُضر ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ والدین بچوں
کو گولیوں ٹافیوں سے پیٹ نہ بھرنے دیں ۔جب اُنہیں بھوک لگے گی تو چارو ناچاروہ گھر
میں پکے ہوئے کھانوں سے ہی پیٹ بھرنے پر اکتفا کریں گے۔ کچھ بچوں پر والدین کو شاید
کافی محنت کرنی پڑے لیکن ایسا کرنا بے حد ضروری ہے۔ کیونکہ بالآخر یہ اُن کے اپنے بچوں
کی صحت کا معاملہ ہے۔کیا آپ میری اِن باتوں سے اِتفاق کرتے ہیں؟ ٹینڈے نے سب کی طرف
سوالیہ نظروں سے دیکھا!
مٹر بولا ’’ اہ! ٹینڈے اُستاد کیا کہنی..‘‘
مٹر کی اِس مستی بھری ادا پر سب خوب ہنسے اور سب نے ٹینڈے کی باتوں سے اتفاق کیا۔
گوبھی بولی ’’ میں ٹینڈے کی بات کو ہی
آگے بڑھائوں گی یہ واقعی افسوس کی بات ہے کہ اب ہمیں اتنے شوق سے نہیں پکایا جاتا لیکن
اِس سے بھی ذیادہ افسوس اِس بات کا ہے کہ جن گھروںمیں ہمیں پکایا جاتا ہے وہاں ہمیں
اتنی دیر آگ پر بھُونا جا تا ہے کہ ہماری ساری غذائیت اُڑا دی جاتی ہے ۔ہم ہانڈی میں
چِلاتے رہتے ہیں اُو! خدا کے بندواگر پکا ہی رہے ہو توہم سے کچھ حاصل تو کرو پر وہ
تو ہمیں بالکل مُردہ کرکے ہی دم لیتے ہیں اور پھر ہمارے مُردہ جسموں کو کھا کر ہی بڑے
خوش ہو جاتے ہیں۔ اِسی لئے تو اُن کے چہرے پیلے ذرد ہیں۔ کیونکہ وہ ہم سب کو ہماری
غذائیت کے بغیرکھاتے ہیں اِس بات نے سب کوافسردہ کر دِیا...ّّ‘‘
اتنے میں دیسی کھیرے نے شوشہ
چھوڑا، ’’دوستو! یہ جو آج کل فارمی بِن موسم کی سبزیاں آتی ہیں۔ کیا ہمیں اُن کی عزت
کرنی چاہیے اور اُنہیں اپنے خاندان کا فرد تسلیم کرنا چاہیے ؟ ‘‘
ادرک نے دیسی کھیرے سے کہا کہ ’’ دیکھو
یار میری سمجھ کے مطابق تو اُن سے نفرت کرنا یا اُنہیں غیر سمجھنا بالکل غلط ہے۔ کیونکہ
وہ سب جیسے بھی ہیں، آخرہیں تو سبزیاں ہی نہ اور اِس میں ایک بڑا باریک پہلو بھی ہی!
وہ یہ کہ اِنسان نے اپنی عقل سے سبزیوں کے ایسے بیج تیار کر لئے ہیں کہ کسی بھی موسم
میں ہمیں اُگایا جا سکتا ہے اور ایک لحاظ سے یہ ہمارے لئے کسی حد تک بہتر بھی ہے کہ
ہم سال کے بارہ مہینوں میں ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں۔ اب دیکھو نہ ساگ پہلے صرف سردیوں
میں ہی ملتا تھا۔ اب گرمیوں میں بھی دستیاب ہے۔ اِس سے کریلے اور ساگ کی اور کئی ایسی
سبزیوں کی ملاقات ہو گئی ہے۔ جو کچھ سال پہلے ایک دوسرے کو نہیں جانتی تھیں قصہ مختصر
چاہی، اِن میں غذائیت کی کمی ضرور ہے لیکن آخر کو یہ ہمارے دوست ہمارے خاندان کے ہی
تو لوگ ہیں اِس لئے ہمیں اِن سے اپنی مانند ہی محبت کرنی چاہیے۔‘‘
ادرک کی فراخ دلی اور معاملہ فہمی نے سب
کو بڑا متاثر کیا اور تمام فارمی سبزیوں نے ادرک کا شُکریہ ادا کیا اور دیسی کھیرا
اپنے اِس احمقانہ سوال پر نہ صرف شرمندہ ہوا بلکہ اُس نے تمام سبزیوں سے اِس کے لئے
معذرت بھی کی جس پر سب نے اُسے نا صرف معاف بھی کیا بلکہ فارمی کھیرے نے دیسی کھیرے
کو گلے لگا کر سب کے سامنے اِس بات کا اقرار کیا کہ ہمیں تمہاری بات واقعی بہت بُری
لگی تھی۔ لیکن ادرک کی باتوں اور تمہاری معذرت نے ہمارے دِل سے ناراضگی کو دُور کر
دیا ہے ۔
سب بہت خوش تھے کہ آج تو بڑی گُتھیاں سُلجھ
رہی ہیں۔ پھر پالک نے ساگ سے پوچھا کہ تم بڑے اُداس ہو خیر تو ہے ؟تم بھی کچھ کہو ساگ
بولا میں کیا بولوں تم سب بول رہے ہو تمہاری باتیں سن رہا ہو ں، اچھا لگ رہا ہے۔ میرا
کیا ہے میں تو اب وہ سبزی ہوں جس کا ذکر سُن کر ہی عورتیں گھبرا جاتی ہیں کہ ساگ تو
نہ ہی لائیں اُسے پکانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ اور محنت بھی بڑی کرنی پڑتی ہے پہلے زمانے
کی عورتیں تو ڈھیروںساگ آرام سے کاٹ لیتی تھیں اور مٹی کی ہانڈیوں میں مُجھے دھیمی
دھیمی آنچ پر پکاتی تھیں پر آج کی عورتیں تو مُجھے وقت کا زیاں سمجھتی ہیں ۔بس میں
اِسی لئے افسُردہ ہوں کہ اب میری گھروں میں وہ جگہ نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی
تھی۔ اب لوگوں کے پاس میرے لئے وقت نہیں ہے اور اِس بات کا مُجھے اُن سے گلہ بھی ہی...‘‘
لیموں بولا ’’دوست اُس اِنسان
سے کیا گِلہ کرنا جس کے پاس اپنے خالق خدا کے لئی، دوستوں عِزیزوں کے لئے اور خود اپنے
لئے بھی وقت نہیں ہے اور رہی تمہاری مقبولیت کی بات تو آج کے اِس جدید دور میں بھی
تمہیں ایک سوغات سمجھا جاتا ہے۔ جس بھی اِنسان کے آگے تمہیں پکا کر ایک دفعہ رکھ دیا
جائے وہ تمیں کھائے بغیر رہ نہیں سکتا۔ کیوں دوستوں یہ بات سچ ہی؟ لیموں نے سب سے مخاطب
ہوتے ہوئے کہا جی ہاں بالکل سچ ہی..‘‘ سب ایک آواز ہوکر با آواز بلند بولے ساگ ہلکا
سا مُسکرایا اور سب کا شکریہ ادا کیا۔
اچانک! ٹماٹروں کی ٹوکری سے سِسکیوں کی
آوازیں آنے لگی سب پریشان ہوگئے لہسن نے پوچھا ’’کیوں بھئی کیوں رو رہے ہو؟تو کچھ ٹماٹر
بولے دوستو، ہم اِس لئے رو رہے ہیں کہ ہم اب نرم پڑ رہے ہیں اور ہمارے جسم کے کچھ حصے
گلنا شروع ہوگئے ہیں...‘‘
حلوہ کدو نے کہا تھا کہ ’’ہم اِس لئے بنائے
گئے ہیں کہ اِنسانوں کو اپنے ذائقے اور غذائیت سے فرحت بخشیں لیکن اگر ہم گل سڑ گئے
تو یقینا ہماری زندگی بیکار ہی جائے گی اورہم بے مقصد فنا ہو جائیں گی..‘‘ ٹماٹروں
کی بات سُن کر دُوکان میں سکتا چھا گیا اور سب خاموش سے ہوگئے ۔اور ٹماٹر ہلکی ہلکی
سِسکیوںسے روتے رہے سب سوچنے لگے اب اِس مسئلے کا کیا حل ہی؟
اِس خاموشی کوآلو نے توڑا دیکھود وستو،
’’اِس معاملے کو سمجھنااتنا مشکل نہیں کہ ہم اسے سمجھ نہ سکیں دراصل اِس کائنات میں
جہاں ہم سب رہتے ہیں ہر چیز کی ایک معیاد ہی، یعنی ایک وقت اُس کے بنائے جانے کا ہے
اور ایک وقت ایسا بھی ہی، جس میں اُسے یا تو ختم ہونا ہوتاہے یا اُسے خود ختم کر دیا
جاتا ہے۔ اِنسان بھی ایک وقت میں چھوٹا بچہ ہوتا ہے۔ پھر وہ جوان ہوتا مختلف مراحل
سے گزرتا ہوا بالآخر بوڑھا ہو جاتا ہے اور اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ اُسے موت آجاتی
ہے وہ مر جاتا ہے۔ مَیں نے اپنے بڑے بوڑھوں سے سُنا ہے کہ اِس موت کی اصل جڑگناہ ہی...‘‘
’’ یہ گناہ کیا بلا ہے آلو میاں
ہم نے تو پہلی بار اِسکا ذکر سُنا ہی..‘‘ میتھی نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا؟
’’ مَیں یہ بات بڑی عاجزی
سے کہنا چاہتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات بُری نہیں لگے گی۔ جب سے میرے چِپس اور فنگر فرائس متعارف ہوئے ہیں میری پُہنچ
دُنیا کے دور دراز علاقوں تک ہر قماش کے لوگوں میں ہوگئی ہے۔ مطلب وہ اِنسان جو محنت
مزدوری کرکے بڑی مشکل سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے یا اُس اِنسان تک بھی جو سرکاری
محکموں میں خوب رشوت اور لوٹ کھسوٹ کرتا اور بے ایمانی کا پیسہ گھر لاتااور دوسروںکا
حق مار کر اپنی زندگی کو پُر آسائش بناتا ہے۔ ریل گاڑی، ہوائی جہاز، بسوں کے اڈوں،
ہوٹلوں، گھروں، ملکوں، شہروں، قصبوںاور دیہاتوںہر جگہ میں طرح طرح کے لوگوں کو دیکھتا
اور اُن کی باتیں سُنتا ہوں۔ مُبلغ لوگ بتاتے ہیں کہ خدا کی بات نہ ماننا یا اُس کی
حکم عدولی کرنا گناہ ہے ۔اور اِسی گناہ کی وجہ سے یہ دُنیا ابتری کا شکار ہے یہ گناہ
کتنا خطرناک ہی، ہم سبزیوں کے لئے سمجھ پاناممکن نہیں!لیکن مجھے یقین ہے کسی نہ کسی
دِن ہم اس بھید کو بھی جان لیں گی...‘‘
ٹماٹر آنسو پونچتے ہوئے ’’ پھر ہمارے ساتھ
تو نا انصافی والی بات ہوئی نہ اگر فنا ہی ہونا ہے۔ تو اِنسان کی زندگی اتنی لمبی اور
ہماری زندگی چند دنوں کی کیوں ہی؟ وہ تو سالہا سال زندہ رہتے ہیں اور ہم چند دنوں میں
ختم ہو جا تے ہیں۔ دیکھو ایسا ہمارا ماننا ہے اگر سچ پوچھو تو اِنسان تو اتنے سال زندہ
رہ کر بھی خوش نہیں ہوتے اُن کے مطابق تو بس وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا والی بات ہے۔
آج کا اِنسان اِتنا مصروف ہے اورغیر ضروری کاموں میں اِس قدر پھنس گیا ہے کہ اُسے وقت
کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔اِنسانوں کی بڑی تعداد بغیر کسی مقصد کے اپنی زندگی گزارتی
ہے۔ دوسروںکو تنگ کرنا تکلیف پہنچاننا اور اپنے مفادات کے لئے زندہ رہنا اُن کا شیوا
ہے۔ ہر کوئی اپنی دوڑ بھاگ میں لگا ہے۔ کوئی مرنا نہیں چاہتا لیکن اِنسان اپنی موت
کے دن کو بُھولے بیٹھے ہیں۔ لیکن پیارے ٹماٹرو مجھے خوشی اِس بات کی ہے کہ تم اپنی
ایسی حالت کو دیکھ کر پریشان تو ہو پر آج اربوں اِنسان اندر ہی اندر گناہ کی وجہ سے
گل سڑ رہے ہیں۔ اُنہیں اِس بات کی رتی پرواہ نہیں ہے۔ میرے پیارے دوستو یہ زندگی کا
پہیہ ہے۔ جو رُکتا نہیںلیکن تمہیں افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں ابھی تمہارے پاس اِنسانوں
کی خدمت کے مواقعے موجود ہیں۔‘‘
’’ پر وہ کیسی؟ ٹماٹر بُجھے سے لہجے میں بولی.. ‘‘دیکھو اگر تم
گل رہے ہو تو کوئی بھی خاتونِ خانہ شاید اب تمہیں نہ خریدے لیکن اگر چاچا رحمت کے لڑکوں
نے ہوشیاری دِکھائی تو شاید تم میں سے دو تین صحت مند ٹماٹروں کے ساتھ لوگوں کے گھروں
میں چلے جائو ۔اِس کے علاوہ مُجھے قوی اُمید ہے کہ تمہیں کوئی نہ کوئی ہوٹل کے پکائے
جانے والے کھانوں میں بھی استعمال کر سکتا ہے اور اگر ہوٹلوں تک بھی نہ پہنچ سکے تو
پھر بھیڑ بکریوں کے پیٹ میں جائو گے اور وہ جانور بھی تو اِنسانوں کے لئے ہی ہیں بس
تم اُن کی خوراک بنو گے اور وہ پھر واپس اِنسانوں کی خوراک ہو جائیں گے۔ بات آئی سمجھ
میں؟ ہمیں اِس بات سے تسلی ہے کہ تم اِنسانوں کی خدمت کرنا چاہتے ہو اور تمہارا دِل
صاف ہے ...‘‘
’’ رے واہ! آلو میاں کیا گھما
پھرا کرمُدعے پر آئے ہو! ‘‘ چقندر نے باآوازِ بلند کہا اور باقی سب نے اُس کی بات کو
سراہا بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہم اپنا کام دیانت داری سے کرتے رہیں یعنی اِنسانوں
کی خدمت اب یہ اُن پر ہے کہ وہ ہمیں کس طرح استعمال کرتے ہیں ہمارا مقصد بس اپنے آپ
کو پیش کرنا ہے میں بس یہی کہنا چاہتا تھا ۔
آلو کی باتوں پر سب نے زور دار تالیاں
بجائیں اور خداکا شُکر کرنے لگے کہ اُس نے ہمیں تخلیق کیا ہے۔پودینے نے خوش ہوتے ہوئے
کہا کہ میرا خیال ہے کہ ’’ آلو میاں کی باتوں کے بعداب مزید گفتگو مناسب نہ ہوگی رات
کافی گزر چُکی ہے دن چڑھنے میں کچھ ہی وقت باقی ہے آئو دوستو اب آرام کریں تاکہ صبح
ترو تازہ اُٹھیں آخر صبح کو ہم نے انسانوں کی خدمت کا کام جو کرنا ہے کیوں دوستو!
‘‘ پودینے نے سوالیہ نظروں سے سب کی طرف دیکھا سب کِھل کِھلا کر ہنسے اور سونے کی تیاری
کرنے لگے۔
No comments:
Post a Comment