Read Article NO. 1

کوڈو
تحریر :شہزاد الیاس
میں
نے اُسے اُستاد طیفے کے گیراج میں ہمیشہ سہما سہما ہی دیکھا تھا۔کبھی اُسے تھپڑ پڑ
رہے ہوتے اور کبھی اُسے سزا کے طور پر مرغا بنایا جاتاتھا۔اُستاد طیفے کی گیراج پر
ہر روز یہی تماشہ ہوتا تھا۔بازار میں سے گزرنے والے لوگ اکثر اُستادطیفے سے کہتے
کہ ’’لڑکے پر ہاتھ ذرا ہولا رکھا کر!۔۔۔‘‘پر اُستاد طیفا ہمیشہ یہی کہتا کہ’’ آپ نہیں جانتے اِس کوڈو کو نسلی ڈھیٹ ہے۔۔۔‘‘وہ
پورے بازار میں’’ کوڈو‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔قد تو اُس کا واقعی چھوٹا تھا پر اِس
میں اُس کا کیا قصور تھا ؟
اُسے
گالیاں کھاتے دیکھ کر مُجھے بُہت بُرا لگتا تھا۔آخر وہ بھی کسی ماں کا بیٹا تھا ۔اُس
کا راج دُلارا تھا۔ اُس کی آنکھوں کا تارا تھا۔اگر اُس کی ماں اُسے اُستاد طیفے
کی دُوکان پر مُرغا بنے دیکھتی تو اُس پر کیا بیتتی؟اُس کے دِل کو کتنی تکلیف ہوتی
ماں تو ماں ہوتی ہے ۔اُس کے لئے تو اُس کا یہی کوڈو دُنیا کا سب سے پیارا بچہ
تھا۔میں سوچتا سارا دِن اِس کوڈو کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، کیا یہ سب کچھ اپنی ماں
کو بتاتا ہوگا؟یا اپنے دِل کا یہ درد اپنے دِل میں چھپائے ساری رات بے چینی سے
بستر پر کروٹیں بدلتا ہو گا؟
اُس
کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ گریس سے بھرے ہوتے تھے۔ ناخنوں میں میل اور چہرے پر گرد جمی
ہوتی تھی۔کبھی جب اُستاد طیفا دُوکان پر نہیں ہوتا ، تو وہ اپنی بے سُری آواز میں
کسی انڈین گانے کی خوب ایسی تیسی کر کے
اپنا رانجھا راضی کرتا تھا۔بازار میں سے گزرتے ہوئے وہ اکثر آئس کریم کے اشتہار
بڑے شوق سے دیکھتا تھا۔شاید اُن اشتہاروں میں اُن کی رنگ دار ساخت کو دیکھ کر اُن
کی مِٹھاس کا اندازہ لگاتا تھا۔
اُس
کی آنکھوں میں کئی سوال تھے! جنہیں پڑھنے کا کسی کے پاس وقت نہیں تھا۔وہ عام بچوں
کی طرح کا ایک بچہ تھا۔خواہشوں اور ارمانوں سے بھرا ہوا۔وہ سکول جاتے بچوں کو بڑی
حسرت سے دیکھتا تھا۔اپنے ماں باپ کا ہاتھ تھامے بچے جن کے ہاتھ میں چاکلیٹ ہوتی
تھی، ہمیشہ اُس کی توجہ کا مرکز بن جاتے تھے۔ وہ دُور تک اُنہیں دیکھتا پھر اُستاد
طیفے کی غلیظ گالی اُسے اُس کی خواب نگری سے گھسیٹ کر واپس سِلن ذدہ گیراج میں
کھینچ لاتی تھی۔اُس کی مُسکراہٹ میں ایک زہریلا طنز تھا۔ جیسے وہ کسی بات پر نہیں
بلکہ خود اپنے آپ پر ہنس رہا ہو۔اُسے کھانے کے لئے ایک روٹی پر سالن رکھ کر دِیا
جاتا تھا۔ جسے وہ ہمیشہ نایدوں کی طرح کھاتا تھا۔ جیسے صدیوں سے بھوکا ہو۔اُستاد
طیفا کبھی اُسے ایک روٹی سے ذیادہ کھانے کو نہیں دیتا تھا۔ شایدوہ اپنے بچوں کو
بھی ایک ہی روٹی دیتا ہوگا؟
اُستاد
طیفا ایک سنگ دِل اور سفاک انسان تھا۔ وہ اپنے بھاری بھرکم ہاتھ سے ہمیشہ اُس بچے
کی ہڈیاں توڑتا نظر آتا تھا۔وہ سارا دِن ٹھٹھوں میں اُڑایا جاتا ، مرغا بنایا
جاتا، گالیاں سُنتا پر وہ خاموش رہتا تھا ۔وہ اپنی آنکھوں سے کبھی
آنسوں ٹپکنے نہیں دیتا تھا۔
شاید وہ سب کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں کوڈو
نہیں ہوں۔
مُجھے
یاد ہے۔ وہ ہفتے کا دِن تھا ۔اُس دِن صبح جب میں اپنے دفتر کے کسی کا م سے باہر
نکلا تو میں نے اُستاد طیفے کو عجیب جنونی حالت میں دیکھا وہ ایک اِنسان نہیں بلکہ
ایک بھیڑیا لگ رہا تھا ۔وہ لیٹ آنے پر کوڈو کو اپنی بیلٹ سے اُدھیڑ رہا تھا ۔کوڈو
کو اُس دِن میں نے پہلی بار روتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ ہاتھ جوڑ کر بتا رہا تھا کہ
اُستاد جی چنگ چی رکشہ خراب ہونے کی وجہ سے لیٹ ہو گیا ہوں۔ میراقصور نہیں چنگ چی
والے کا قصور ہے۔وہ خوف سے کانپ رہا تھامیں نے دوڑ کر اُسے اپنے سینے سے لگا لیا
اُس کا دِل اُس کے سینے میں کسی بے بس چڑیا کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔ اُس کی کمر کی
کھال کئی جگہ سے اُدھڑ چکی تھی۔ میں اُسے فورا ڈاکٹر کی کلینک پر لے گیا جہاں اُس
کے زخموں پر مرہم رکھا گیا۔اُس کی چیخیں سُن کر پورا بازار اکٹھا ہو گیاسب اُستاد
طیفے کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔اُستاد طیفا سر جھکائے شرمندگی کا بُت بنا کھڑا
تھا۔
شام
کے وقت میں نے اُسے دُودھ دہی کی دُوکان پر دیکھا میں نے اُس کی طبعیت کے بارے
دریافت کیا اُس نے بڑی محبت سے میرا شکریہ ادا کیا اُس نے بتایا کہ اُستاد طیفے نے
اُس سے معافی مانگی تھی اور میں نے اُسے دِل سے معاف کر دیا ہے۔میں نے اُسے شاباش
دی اور اُس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے۔ تو اُس نے بتایا کہ آج ہفتے کا
دِن ہے مُجھے ہفتہ مِلا ہے۔ پورے پچاس روپے اُس کے چھوٹے سے ہاتھ میں د س دس کے
پانچ نوٹ تھے۔ جنہیں وہ بڑے فخر سے مُجھے دِکھا رہا تھا۔میں ہر ہفتے اپنی ماں کے
لئے یہاں سے برفی لے کر جاتا ہوں۔ میری ماں کو برفی بُہت پسند ہے۔اُس نے دس روپے
دُوکان والے کو دیئے جِس نے اخبا ر کے ٹکڑے میں برفی کے دو ٹکڑے لپیٹے اُنہیں
شاپنگ بیگ میں ڈال کر شاپنگ بیگ اُس کے حوالے کر دیا۔میرا دِل چاہا میں اُسے ڈھیر
ساری برفی اپنے پیسوں سے لے کر دُوں لیکن یقین مانیں میری ہمت ہی نہیں ہوئی کہ میں
اُسے روک سکتا۔اُس کے چہرے پر فخر اورخوشی کے مِلے جُلے تاثرات تھے۔ جنہیں میں
کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ اُس کے ہاتھوں میں دُنیا کی سب سے مہنگی مِٹھائی تھی ۔جس
کی قیمت وہ جانتا تھا یا اُس کی ماں جانتی تھی۔ وہ میری طرف دیکھ کر مُسکرایا اُس
نے مجھے ’’خدا حافظ۔۔۔‘‘ کہا اور خود چنگ چی رکشوں کی طرف بڑھ گیا۔میں اُسے فخر سے
چلتے ہوئے دیکھ کر مُسکرایا وہ بڑا صابر ، بڑی برداشت والا، معاف کرنے والا،محنت
کرنے والا اور اپنی ماں سے والہانہ محبت کرنے والا تھا۔وہ واقعی کوڈو نہیں تھا!
No comments:
Post a Comment