احتیاط ضروری ہے!

Read Story No. 3 


احتیاط ضروری ہے!

ٹھک ٹھک!!!ٹھک ٹھک!!!
’’ارے بھئی کون ہے ؟ جس سے ایک منٹ بھی صبر نہیں ہو رہا‘‘
’’ امی دروازاہ کھولیں میں ہوں‘‘امی نے جلدی سے دروازاہ کھولا۔۔۔
’’ پتہ نہیں تمہاری طبیعت میں سے یہ بے صبری کب جائے گی؟اب تم بڑے ہو گئے ہو بچکانہ حرکتیں کرتے ہوئے تم اچھے نہیں لگتے۔خیرسے فرسٹ ائیر کے سٹوڈنٹ ہو‘‘
’’ امی جان آپ بھی نا۔۔۔ہر وقت تنقید کا ڈنڈا ہاتھ میں تھامے رہتی ہیں۔‘‘  کاشف صحن میں کھڑا تھا وہ جیسے کسی چیز کی خوشبو سونگھ رہا تھا۔۔۔’’ امی کمال کر دیا آپ نے مچھلی بنائی ہے نا آپ نے ؟جلدی سے مجھے کھانا دے دیں بھوک سے میرا بُرا حال ہو رہا ہے۔‘‘
’’ کاشف ایک تو تم ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہو کھانا بس تھوڑی دیر میں تیار ہو جائے گا ۔تم اُتنی دیر میں کپڑے تبدیل کر و اور منہ ہاتھ دھو کے فریش ہو جائو۔۔۔‘‘
’’امی جان مچھلی کی خوشبو میرے ناک میں جاتے ہی پیٹ میں بھوک کا طوفان برپا ہوگیا ہے پلیز جلدی کریں۔۔۔‘‘
’’اچھا بابا اچھا ۔۔۔کہا نہ تم کپڑے بدلو میں کھانا لگا رہی ہوں ‘‘ !!!
’’کیوں بھئی ننھی گُڑیا کیا ہو رہا ہے؟‘‘
ندا نے معصومیت سے جواب دیا ’’ڈرائینگ کر رہی ہون بھائی۔۔۔‘‘
’’ تم تنگ نہیں پڑتی تصویروں میں رنگ بھر بھر کے؟‘‘
’’نہیں بھائی مجھے رنگوں سے محبت ہے میرا دل کرتا ہے کہ میں بس رنگ بھرتی رہوں ۔۔۔‘‘
’’ہاہاہاہا اچھاذرا دِکھائو کیا کام کیا آج تم نے کون کون سی تصویروں بنائیں اور کیسے رنگ بھرے ہیں ان میں؟ ‘‘
’’ارے واہ کمال کردیا۔۔۔میری گڑیا تو دن بہ دن بڑی ماہر ہوتی جا رہی ہے! امی جان دیکھا آپ نے کیسی خوبصورت تصویریں بنائی ہیں میری ننھی گڑیا نے؟‘‘
’’ ہاں بھئی یہ تو سارا دن مجھے بُلا بُلا کر اپنی بنائی تصویریں ہی دکھاتی رہتی ہے ۔۔۔یہ اور اس کی تصویریں۔۔۔امی نے ہنستے ہوئے کہا۔‘‘
’’دیکھنا میری ننھی گڑیا ایک دن بہت بڑی آرٹسٹ بنے گی!!!آمین آمین ۔۔‘‘امی نے کچن میں سے کاشف کی بات کی تائید کی۔
’’میں گڑیا نہیں ہوں میں ندا ہوں۔۔۔‘‘
’’ہاں بھئی ہاں تم ندا ہو پر میرے لئے تو تم ننھی گڑیا ہی ہو ۔۔۔نا؟بوڑھی بھی ہو جائو گی تو میں تمہیں ننھی گڑیا ہی بلائوں گا ۔‘‘
’’کاشف اب باتیں چھوڑو اور جائو کپڑے تبدیل کرو! ۔۔۔‘‘
’’اچھا امی جان بس یوں کیا اور یوں آیا۔‘‘
کاشف اور ندا کے ابو شبیر صاحب ایک پرائیوٹ فرم میں ملازم تھے۔بڑے خوش اخلاق اور محبتی انسان تھے ۔جب کے کاشف اور ندا کی امی ایک سُگھڑ گھریلو خاتون تھیں۔جنہیں ہر وقت اپنے گھر کی صفائی سُتھرائی کے نت نئے خیال سوجھتے رہتے تھے۔
’’امی جا ن میری پیلی شرٹ دُھلی ہوئی ہے نا۔۔۔۔؟‘‘
’’پیلی شرٹ وہ کون سی شرٹ ہے بھلا؟‘‘
’’امی جان جس پر چھوٹے چھوٹے پھول بنے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں وہ شرٹ دُھلی ہوئی ہے۔کیوں کیا وہ ابھی پہنو گے؟ابھی کے لئے تو میں نے تمہارے کمرے میں شلوار کُرتا استری کر کے رکھا ہوا ہے۔۔۔
’’امی جان میں شلوار کُرتاہی پہن رہا ہوں ۔۔۔شرٹ کا اِس لئے پوچھ رہا ہوں کیوں کے ہمارے سکول میں کل فنگشن ہے سوچا وہ شرٹ پہن جائوں گا۔۔۔‘‘
’’ہاں وہ شرٹ تم پر سجتی بھی بہت ہے۔۔ ‘‘!
’’چلو اب آبھی جائو ۔۔۔یا کمرے سے ہی گفت گو فرماتے رہو گے؟‘‘
’’لوجی آگیا ۔۔۔واہ!۔۔۔فرائی مچھلی ساتھ املی آلو بخارے کی چٹنی کمال ہو گیا ۔۔۔!‘‘
’’ننھی گڑیا رنگوں اور تصویروں کی دُنیا سے باہر نکلو آئو مل کر کھانا کھاتے ہیں ۔۔۔؟‘‘
’’بھائی مجھے بھوک نہیں ہے! بھوک نہیں ہے یہ کیا بات ہوئی بھلا؟کھانے کا وقت ہے کھانا کھائو!‘‘
’’اس نے تھوڑی دیر پہلے آلو کا پراٹھا کھایا ہے یہ ابھی نہیں کھائے گی! ۔۔۔ارے واہ بھئی واہ!! آلو کا پراٹھا اکیلے اکیلے ہی کھا لیا بھائی کو پوچھا تک نہیں؟‘‘
’’بھائی آپ گھر پر تھے ہی نہیں تو کیسے پوچھتی؟‘‘ندا نے معصومیت سے جواب دیا؟
’’یہ بھی خوب کہا چلو اگر تم نہیں کھانا چاہتیں تو میں پھر تمہارا حصہ بھی کھا لیتا ہوں۔۔۔‘‘ہاہاہا ۔۔۔کاشف نے ندا کو چڑاتے ہوئے پوچھا؟’’جی کھا لیں اگر کھا سکتے ہیں تو۔۔۔میںامی جان سے کہہ کر دوبارہ بنوا لو ں گی جب مجھے بھوک لگے گی۔۔۔؟‘‘
’’امی جان آپ نے تو کمال کر دیامزہ آگیامچھلی کھانے کا آج تو۔۔۔۔‘‘کاشف مچھلی کے ذائقے میں یہ بھی بھول گیا کہ مچھلی میں کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ ۔۔اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھاکانٹا کاشف کے گلے میں پھنس گیا۔۔۔کاشف چلایا اُف!! خدا کانٹا۔۔۔‘‘امی اورندا نے گھبرا کر کاشف کی طرف دیکھا۔۔۔’’یہ لو بیٹا پانی کتنی بار کہاہے جلدبازی نہ کیا کرو!‘‘
خدا خدا کر کے کانٹا نیچے گیا۔لیکن یکایک ایک خیال کاشف کے ذہن میں بجلی کی طرح کونداکہ لذیذمچھلی کی طرح ہماری دُنیا میں بھی تو بے شمار کانٹے ہیں ؟لاپرواہی برتنے پر دُنیا کے یہ کانٹے ہماری زندگی میں چبھ سکتے ہیں۔ بلکہ اس میں تو ایسے بھی ہیں جن کے چبھ جانے کے بعد پتہ بھی نہیں چلتا اور ایسے بھی ہیں، جو چبھ جائیں تو اُن کو نِکالا بھی نہیں جا سکتااور ہمیں اس دُنیا میں اس قسم کے کانٹوں سے ہوشیار 
رہنا ہوگا۔۔۔!’’کیا بات ہے کیا سوچ رہے ہو کھانا کیوں نہیں کھا رہے ؟‘‘
کاشف چونکا اور اپنے آپ سے یہ عہد کرتے ہوئے خیالات کی دُنیا سے واپس آیا کی جس طرح مچھلی کا لذیذ سالن کھاتے ہوئے اس کے کانٹوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے اسی طرح اپنے آپ کو اِس حسین دُنیا کے کانٹوں سے بچانا بھی انتہائی ضروری ہے۔خدا کے فضل سے فقط میں اپنے آپ کو ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی ان کانٹوں سے بچنے کی ترغیب دُوں گا۔خدا مجھے اس مقصد میں کامیاب کرے۔
امی اُسے حیرت سے دیکھ رہی تھیںکاشف نے امی کی طرف مسکرا کر دیکھا اور احتیاط سے مچھلی کھانے لگا۔۔۔۔۔ختم شُد









No comments:

Post a Comment

Adbox

@templatesyard