آئیڈل لائف اور ہم

Read Articles  No. 2





 آئیڈل لائف اور ہم

کیا   ابتری و بے چینی کے اس ماحول میں آئیڈل لائف کو پانا ممکن  ہے؟

( ڈیوڈ انور)

        ٹریفک کے شور میں پولیس کے سائرن کی آواز ہمارا دھیان دنیا میں پھیلی ابتری کی طرف لے جاتی ہے۔ ٹی۔وی لگاتے ہی چوری، بینک ڈکیتی، قتل اور ایسی بہت ساری بری خبروں کا سیلاب آجاتا ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں ابتری تیزی سے پھیل رہی ہے۔بعض اوقات لگتا ہے جیسے زندگی مسائل میں گھرکر رہ گئی ہے۔ کہیں سے کوئی اچھی خبر آتی ہی نہیں!
        زندگی کو آسان اور پُر لطف بنانے کے لئے بہت سی کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ بہت سے خواتین و حضرات ٹی۔وی پر ایسی بہت سی ترکیبیں بیان کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق وہ آزمودہ باتیں آ پ کے لئے بھی فائدہ مند ہو سکتیں  ہیں۔ مگر حالتِ حاضر کی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ تو کیا اس سے یہ مان لیا جائے کہ ان کی وہ ترکیبیں بے کار ہیں؟
         معلوم ہوتا ہے کہ ایک ابتری انسان کا پیچھا کر ہی ہے۔ کوئی بھی انسان جو آپ کو پُر سکون دکھائی دیتا ہے۔ دن کے ہر پہر میں پُر سکون نہیں ہوتا۔ کھانا کھاتے وقت، گاڑی چلاتے وقت، بات چیت کرتے وقت یا پھر کسی اَور وقت اس کی بے چینی ظاہر ضرور ہو گی۔ کیا حالات بے چینی پھیلا رہے ہیں یا یہ بے چینی انسان کے اندر سے نکل رہی ہے؟
        اگر ہم اپنی نگاہیں اپنے گھر اور معاشرے سے ہٹا کر عالمی سطح پر لگائیں۔ تو ہمیں معلوم ہو گا کہ عالمی حالات بھی ایسے ہی ہیں۔ ہر ملک اس ابتری سے جنگ لڑ رہا ہے۔ خواہ وہ خطہ زمین کو لے کر ہو، اقتصادی ہو، معاشی ہو، یا  سیاسی یا اس کی شکل کوئی بھی ہو مگر یہ جنگ جاری ہے۔ انسان نے اپنے فہم و فراست سے چاند تک اپنی پہنچ بنا لی ہے۔ اسی فہم و فراست سے ہی وہ امن پانے کے لئے حالات سے جنگ لڑ رہا ہے۔ جیسی خبریں ہمیں سننے کو ملتی ہیں، اس سے ہم انسان کی اس امر میں کامیابی کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جو کہ نہ  ہونے کے برابر ہے۔
        تقریباً سات ارب کی اس دنیا میں ہر سال تقریباً دس لاکھ لوگ انہی حالات سے مایوس ہو کر خود کشی کر لیتے ہیں۔ زندہ لوگوں کا ایک بڑا حصہ انہیں حالات کا سامنا کرتا ہے۔ مگر ذہنی طور پر مضبوط شخص اور زندگی کا وسیع تجربہ رکھنے والے ان حالات کے ساتھ لڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ حالات کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
        خداوند کریم نے ہمیں خاندان میں پیدا کیا ہے۔ خاندانوں میں رہ کر ہماری زندگیاں ایک معاشرے کا حصہ بنتی ہیں۔ معاشرے میں ہماری زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی بات جو معاشرے پر اثر انداز ہو رہی ہے اس کا اثر خاندان پر ہو گا، خاندانی حالات اور ماحول کا فردِ واحد پر۔ آپ نشہ کرنے کی مثال لے لیجئے۔ ہر ملک اسے کنڑول کرنے کے لئے سخت قانون سازی کرتاہے۔ مگر پھر بھی یہ ملکی حدود سے باہر سمگر ہوتا ہے۔ ایک افسوس ناک بات جسے سن کر آپ کو حیرت ہو گی، اتنے سخت اقدامات اور قانون سازی کے باوجود یہ کاروبار پھیل کر دنیا کا دوسرا بڑا کاروبار بن گیا ہے۔ جس نے ہر لیول پر بہت سارے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اس کی خرابیاں بین الاقومی سطح پر بھی ہیں معاشرتی، خاندانی اور شخصی بھی۔ کوئی بھی بات جو عالمی سطح پر پھیل گئی ہو، ا س کا آغاز فردِ واحد ہی سے ہوا ہوتا ہے۔وہ پھیلتی پھیلتی معاشروں اور ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ 
        موجودہ دور میں لوگ بہت اڈوانس اور دور اندیش ہو گئے ہیں۔ وہ آنے والے کل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کس طرح آنے والے کل کو بہتر بنایا جائے؟ اس کیلئے ایسی نوکری تلاش کرتے ہیں، جہاں کے لوگ اور ماحول پُرسکون ہوں۔ وہاں سے اتنی آمدن کمائی جائے جس سے بہترین زندگی کا حصول ممکن ہو۔ اُن کے مطابق وہ ادارہ جس میں وہ پہلے سے کام کر رہے ہیں وہاں یہ ممکن نہیں، اسی لئے وہ ایک نئی جگہ تلاش کرتے ہیں یا کرتے رہتے ہیں۔ بالاخر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ باکمال، پُر وقار اور بے خطر زندگی کا حصول اس ملک میں ممکن نہیں۔ وہ ایک نئے ملک میں جائیں گے اور نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ پھر وہ اس کوشش میں جُٹ جاتے ہیں۔ جدو جہد کے اس ہمالیہ کو سر کر نے کے بعد نئے ملک میں نئی زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے۔وہاں کی
آب و ہوا وہاں کا ماحول وہاں کے حالات پُرسکون اور پُر مسرت ہوتے ہیں۔ ہر چیز حُسن کی کمال بلندی پر دیکھائی دیتی ہے۔ بے شک یہ سچ ہے۔ نئے لوگ ملتے ہیں نئے مراسم قائم ہوتے ہیں۔ نئے کھانے کھانے کوملتے ہیں۔نیا  پہناوا ہر نئی چیز بہترین اور خوبصورت ہوتی ہے۔ وہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ وہاں کی تہذیب اور اُن لوگوں کا رہن سہن چند مہینوں تک تو فرحت بخش رہا لیکن کچھ عرصے کے بعد وہی سب کچھ چبھن کا باعث بن جاتا ہے۔ پہلے تو صرف اُس اکیلے کو ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے  کام کرنا پڑتا تھا۔ مگریہاں بیوی اور بچوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر وہ  وہاں کے عام شہریوں جیسا طرزِ زندگی گزارپاتا ہے۔ اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ یہاں بھی زندگی تیز اور جدوجہد سے بھر پور ہے۔چوری چکاری گھروں اور گلیوں سے نکل کر بینک اکاونٹ ہیکنگ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ شادیوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ یہاں بھی جاری ہے۔ زلزے اور سیلاب کا خطرہ بھی وہیں کا وہیں ہے۔ جس بھرپور زندگی کا خواب وہ یہا ں لے کے آیا تھا وہ تو یہاں بھی نہیں۔
        سب بطلان اور ہوا کی چران ہے“یہ جملہ شاہِ اسرائیل واعظ کا ہے۔ حکمت فہم و فراست میں کوئی اس کا ثانی نہیں۔ اسی بل بوتے پر اس نے اپنا دل لگایا کہ آسمان کے نیچے ہونے والے ہر امر کی تحقیق و تفتیش کی جائے۔ تاکہ یہ جان لیا جائے انسان کی فلاح کس کام میں ہے تاکہ انسان اپنی عمر پھر وہی کام کرے۔ اس نے کثرت کے ساتھ نوکر رکھے، عمارتیں بناوائیں، باغات لگاوائے جن میں ہر طرح کے میواجات موجود تھے۔ کثرت کے ساتھ لونڈیاں اس کے محل میں تھیں، صوبوں اور بادشاہوں کا خزانہ سونا، چاندی باکثرت اپنے لئے جمع کیا۔ اس نے خوشی اور غم دونوں کا مشاہدہ کیا۔ایک عرصہ مشاہدہ کرنے کے بعد وہ کہتا ہے۔ ”سب بطلان اور ہوا کی چران ہے“ لمبی تحقیق اور مشاہدے کے بعد وہ کہتا ہے کہ یہ چیزیں باطل اور ختم وہ جانے والی ہیں۔ ان سب کا تعلق جسمانی دنیا سے ہے۔ ان چیزکو پا کر اُس نے وقتی تسکین تو پا لی مگر یہ سب چیزیں اُسے روحانی تسکین نہیں دے سکیں۔ جو چیزیں مٹ جانے والی ہوں، ان سے ملنے والی خوشی بھی ان چیزوں کے ساتھ ہی کافور ہو جاتی ہے۔”باطل ہی باطل ہے“ اس جملے میں ہم روحانی خلا وہ محسوس کر سکتے ہیں۔ جو سب چیزوں کو پانے کے بعد بھی اس کی روح میں موجود ہے۔
        ”...اُس نے ابدیت کو بھی ان کے دلوں میں جاگزین کیا ہے...“ (واعظ ۳:۱۱)۔ ٹنڈیل کا نسل بائبل کمنٹری میں Robert B. Hughes And J. Carl Laney اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یوں کہتا ہے ”خدا نے  انسان کو ابدی نقطِ نظر بخشا ہے (ابدیت کو انسانی دلوں میں لگایا ہے)۔ تاکہ وہ انسانی بطلان سے باہر سوچ سکے۔“کیونکہ خدا نے ابدیت کو انسان کے دل میں قائم کیا ہے۔جب انسان ابدیتی نکتہ نظر سے چیزوں کو دیکھتا ہے۔ تب چیزوں کی حقیقت اس پہ کھلنے لگتی ہے۔ اس کے اندر روحانی تلاش پیدا ہوتی ہے۔ تب انسان فانی اور غیر فانی، مادی اور غیر مادی چیزوں کی تلاش کرتا ہے۔ انسان کو اپنے محدود ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اپنے سے افضل اور بااختیار ہستی کی تلاش میں لگ جاتاہے۔ جو اس کے مسائل اور پریشانیوں کا حل کرے۔ تلاش کے اس سفر میں کئی راہ میں گمراہ ہو جاتے ہیں۔ بت اور ارواح پرستی شرو ع کردیتے ہیں۔ جن کے اندر یہ تلاش مر جاتی ہے وہ دہریت کو اپنا لیتے ہیں۔ وہ یہ مان لیتے ہیں یہ کائنات حادثاتی طوریہ وجود میں آئی ہے۔جو تلاش کو جاری رکھتے ہیں وہ اس حقیقی ہستی کی پہچان پا لیتے ہیں جسے نے اس کائنات کو خلق کیا جو انسان کو حقیقی نجات دے سکتا ہے۔
        ابدیت کے انسانی دل میں قائم کئے جانے سے انسان اُس روحانی خلا کو محسوس کر سکتا ہے۔ انسان کی غلطی یہ ہے کہ اپنی روح میں بسے بہت بڑے روحانی خلا کو جسمانی چیزوں سے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ا گر انسان یہی کرتا رہا تو وہ ایک بار پھر ناکام ہو جائے گا۔ کیونکہ روح کی گہرائیوں میں موجود اس روحانی تلاش کی تکمیل جسمانی چیزوں سے ممکن نہیں۔
        انسان نا جانتے ہوئے بھی اس زمین کی بادشاہتوں میں ایک ایسی زندگی کی تلاش کر رہا ہے۔ جو پُر وقار، باکمال، حسین، دکھوں، بیماریوں سے مبرا ا ور آرام سے بھرپور ہو۔ ایک ایسی زندگی جہاں اُسے اپنی پریشانوں سے رہا ئی مل جائے۔ انصاف کا بول بالا ہو، اداروں میں کسی کا حق نا مارا جائے۔ دراصل انسان جس آئیڈیل لائف کی تلاش اس زمین کی بادشاہیوں میں کر رہا ہے وہ اس زمین کی موجودہ کسی بادشاہی میں ممکن نہیں ہے۔ اسے لئے کہ یہ سب بادشاہیاں ختم ہو جائیں گیں۔ جب خدا آسمان سے اپنے مسیح کی بادشاہی کو ظاہر کرے گا۔ جو اس بڑے پتھر کی طرح ظاہر ہو گی جو بغیر ہاتھ لگائے کاٹا گیا اور زمین کی ان تمام بادشاہیوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور برباد کر دے گی۔ زمین کی بادشاہیاں ”بھوسے کی مانند اڑ جائیں گیں“۔ مگر یہ بادشاہی ابد تک رہے گی۔ کیونکہ اس بادشاہی کو خدا اس قائم کرے گا۔
        ماضی میں بہت بااختیار بادشاہ اس زمین پہ برپا ہوئے تھے اور ان کی حکومتیں چلی گئیں، نہ وہ قائم رہے نہ اُن کی حکومتیں۔ اس زمین یہ ابدی بادشاہی وہ قائم کرسکتا ہے۔جو گناہ، موت، عالم ارواح اور ابلیس کو شکست دے۔ جو ان کو شکست دے وہی ابد تک زندہ رہے گا۔ کیونکہ یہ وہ دشمن ہے سے کے آگے ماضی کا ہر بادشاہ شکست کھاتا آیا ہے۔سائنس کی ترقی کے باوجود عصر حاضر کی جمہوری حکومتیں اور بادشاہتیں انسان کے ہر ایک دکھ کا علاج نہیں کر سکتیں نا موت کو شکست دے سکتی ہے۔آج بھی موت ان سب پر   حکومت کرتی ہی ہے۔
         خداوند مسیح کے سامنے جب ابلیس آیا اور اس کی آزمائش کرنے لگا تو وہ اس کے سامنے قائم نہ رہ سکا اور شکست کھا کے بھاگ گیا، جب یہ جہان کے گناہ اپنے اوپر اٹھاتا ہے تو ساتھ لٹکے ڈاکو کو فردوس میں لے جانے کا اعلان کرتا ہے۔جب یہ عالم ارواح میں اترتا ہے تو وہاں پہلے سے موجود قیدی روحوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اعلان کرتا ہے کہ ”موت اور عالم ارواح کی کنجیاں میرے پاس ہے۔“ عالم ارواح پر فتح کا اعلان کرتا ہے۔ پھر یہ گناہ اور موت شکست دے کر قبر سے نکل آتا ہے۔ اور کہتا ہے موت تیری فتح کہاں رہی۔۔۔
        یہ فاتح بادشاہ ہی اس زمین پہ وہ آئیڈیل بادشاہی قائم کرے گا۔ جس کی تلاش انسانی روح میں ہے۔ انسان زمین کی بادشاہتوں میں جس زندگی کی تلاش کر رہا ہے۔ وہ خدا اپنی بادشاہی میں انسان کو دینا چاہتا ہے۔ لیکن خدا اپنے بے پناہ اختیار، قدرت، جلال اور زورسے اس زمین پر ایک ایسی بادشای کو قائم کرے گا۔ جس میں وہ اس بادشاہی کا حصہ بنے ہر شخص کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ پھر نہ موت رہیگی نہ ماتم نہ آہونالہ نا درد۔


No comments:

Post a Comment

Adbox

@templatesyard