13 منٹ

Read Artificial No. 2



تیرہ منٹ
تحریر: پاسٹر شہزاد الیاس

        میرے ہاتھ میں بجلی کا بِل تھا اور ذہن میں صرف یہی خیال گھوم رہا تھا۔ ’’  خداکرے بینک میں زیادہ رش نہ ہو۔۔۔بِل جمع کروانے والے کم ہی ہوں تاکہ جلدی واپس آکر دفتر کے کچھ کام کر سکوں۔۔۔‘‘
یہی سوچتے ہوئے میں نے دفتر کو لاک کیا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا سیڑھیوں سے نِچے گراؤنڈ فلور کی جانب چل پڑا۔ہمارا دفتر پہلی منزل پر تھا۔ اس لئے گراؤنڈ فلور تک پُہنچنے کے لئے چند سیڑھیاں اُترتی تھیں۔میں کچھ ذیادہ ہی جلدی میں تھا۔ کیوں کے دفتر کے باقی کاموں کی فہرست میں اپنے ذہن میں پہلے ہی تیار کرچُکا تھا ۔ کس کام کو پہلے اور کس ترتیب سے سر انجام دینا ہے۔گراؤنڈ فلور پر ٹریول ایجنسیوں اور کورئیر سروس کے کئی دفاتر تھے جن میں کافی لوگوں سے میری اچھی خاصی سلام دُعا تھی۔گرمی کی شِدت صُبح سے ہی کافی بڑھ گئی تھی۔جیسے ہی میں نِیچے اُترا تو نعیم صاحب سے مُلاقات ہو گئی۔یہ ایک کورئیر سروس کے آفس میں نئے نئے مُلازم ہوئے تھے۔لیکن اپنی خوش اخلاقی اور مِلنسار طبیعت کی وجہ سے اُنہوں نے قریب سبھی آس پاس کے لوگوں سے اچھی جان پہچان بنا لی تھی۔سادہ سے اِنسان تھے ۔درمیانہ قد،دبلے پتلے اور کافی خوش مزاج سے تھے۔میں نے اُنہیں ہمیشہ شلوار قمیض میں ہی ملبوس دیکھا تھا۔میری قریب روز ہی اُن سے دُعا سلام ہوتی تھی۔ پر اُس دِن مجھے دیکھ کر اُنہوں نے بُہت اِصرار کیا کے’’  جناب آج تو میں آپ کو چائے پِلاکر ہی رہوں گا!آپ ہر دفعہ۔۔۔ پھر کبھی کا نعرہ لگا کر چلے جاتے ہیں پر آج کوئی بہانہ نہیں چلے گا ! ۔۔۔‘‘
میں نے لاکھ منت سماجت کی کے’’ میں جلدی میں ہوں، بینک میں رش بڑھ گیا تو دفتر کے باقی کام دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔چلیں اتنی سہولت تو دِیجئے کے میں پہلے بِل جمع کروا آؤں واپسی پرآپ کے پاس چائے کے لئے حاضر ہو جاؤں گا۔۔‘‘
 اُنہوں نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا اور بولے’’  آپ کا بُہت شکریہ آپ کی واپسی تک میں چائے منگوا لوں گا۔۔‘‘ چلیں ٹھیک ہے ،’’میں بس یوں گیا اور یوں آیا۔۔۔‘‘ میں نے چُٹکی بجاتے ہوئے کہا!میرے اِس انداز پر وہ ایک دفعہ پھرمُسکرا دیئے ۔بینک میں میری توقع کے مطابق ذیادہ رش نہیں تھا۔قطار میں مُجھ سے پہلے چار افراد تھے۔اور تسلی بخش بات یہ تھی کہ اُن کے پاس صرف ایک ایک بِل ہی تھا۔میں نے گھڑی دیکھ کر اندازہ لگایا کہ مزید دس سے بارہ منٹ میں واپسی ہو جائے گی ۔میرا اندازہ ٹھیک نِکلا دسویں منٹ میں بینک کی کھڑکی سے میری بقایا رقم اور مہر لگی ہوئی بِل کی کاپی برآمد ہو چُکی تھی۔میں نے رقم گِن کر تسلی کی بِل پر بینک کی مُہر کو دیکھا بینک کیشئر کا شکریہ ادا کیا اور تیز قدم اُٹھاتا ہوا دفتر کی جانب چل دیا۔ہمارے پلازہ اور بینک میں صرف دو عمارتوں کا فاصلہ تھا ۔میں چند ساعتوں میں بینک سے نعیم صاحب کے دفتر پُہنچ گیا۔چائے والا لڑکا اور شفیق صاحب جن کا دفتر نعیم صاحب کے بالکل ساتھ تھانعیم صاحب کو اُٹھا کر اُن کے دفتر میں لے جا رہے تھے۔نعیم صاحب کا جِسم با لکل بے جان ہو چُکا تھا۔’’ کیا ہوا۔۔۔‘‘ میں نے حیرت سے شفیق صاحب کی طرف دیکھا،
 ’’ پتہ نہیں جناب میں تو سِگریٹ پینے باہر نِکلا تھا کہ میں نے اِنہیں اپنا سینہ ملتے ہوئے دیکھا اِس سے پہلے کہ میں اِنہیں پکڑتا یہ زمین پر گِر گئے۔میرے خیال سے تو  ان کی موت ہوگئی ہے۔۔۔‘‘ چائے والے نے نبض دیکھتے ہوئے کہا!میرے سامنے ایک بے جان وجود پڑا تھا۔میز پر چائے کے دو کپ پڑے تھے۔جس میں سے ایک کپ میرا اور دوسرا نعیم صاحب کا تھا۔شفیق صاحب کے فون کرنے پر 1122 والے چند مِنٹوں میں پُہنچ گئے۔اُنہوں نے نعیم صاحب کی موت کی تصدیق کر دی۔
صرف تیرہ مِنٹ کے وقفے کے اندر ایک جیتا جاگتا خواہشات اور تمناؤں سے بھرا ہوا اِنسان بے جان گوشت کا ڈھیر بن چُکا تھا۔چائے تو میز پر پڑی تھی لیکن اِس چائے کو اُٹھانے والے ہاتھ اور اِس کا ذائقہ چکھنے والی زبان کام کرنا چھوڑ گئے تھے۔زندگی اور موت میں واقعی ایک قدم کا فاصلہ ہوتا ہے۔آنے والی گھڑی میں کیا ہوگا ہم نہیں جانتے؟اِس اچانک موت کا سُن کر اردگِرد کے دفاتر سے کافی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو چُکے تھے۔دفتر کا لاک کھول کر میں سامنے پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا میری آنکھوں میں آنسو ٹِمٹِما رہے تھے اور میں سوچ رہا تھاکہ ’’ وہ کون سا آدمی ہے جو جیتا ہی رہے گا اور موت کو نہ دیکھے گا؟‘‘
مُجھے اُس دانش مند اُستاد کی بات یاد آگئی جِس نے اپنے شاگِردوں کو پڑھاتے ہوئے اِس بات کی تلقین کی تھی کے مرنے سے ایک دِن پہلے خدا سے اپنے سرکردہ گناہوں کی معافی ضرور مانگ لینا!اور اُس کے ایک شاگِرد نے مودبانہ انداز میں سوال کیا تھا کہ’’ اُستادِ مُحترم ہم میں سے تو کوئی بھی نہیں جانتا کے ہم کب مریں گے۔۔۔‘‘ اُستاد نے مُسکرا کر اپنے اُس پیارے شاگِرد کی طرف دیکھا اور کہا تو پھر تمہیں آج ہی توبہ کر لینی چاہیے!’’دیکھو یہ قبولیت کا وقت ہے دیکھو یہ نجات کا وقت ہے‘‘

No comments:

Post a Comment

Adbox

@templatesyard