Read Story No. 2

بے حِس لوگ
تحریر: پاسٹر شہزاد الیاس
’’میں
نے کہا نہ کہ میں جلدی آ جاؤں گا! تم پریشان مت ہو۔۔۔دیکھو! پریشان ہونے سے کچھ
نہیں ہوگادُعا کرو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔‘‘
’’ہاں ہاں ٹھیک ہے اُوکے بائے۔۔۔‘‘
ایوب کے چہرے سے پریشانی چھلک رہی تھی۔
’’ہاں بھئی! ایوب گاڑی تیار ہوگئی؟جی صاحب جی۔۔۔‘‘
’’چلو ہمیں آج بہت کام کرنے ہیں تمہاری بیگم صاحبہ نے آج تو بُہت لمبی لِسٹ بنا دی ہے چیزوں کی۔۔۔ہنی کی سالگِرہ کے لئے اِتنے سارے مہمان بُلا لئے ہیں آرڈر ہے کہ ۔۔۔ شام چار بجے تک سب تیاریاں مکمل ہو جانی چاہیں!ایک تو کیڑنگ والے بھی ابھی تک نہیں پُہنچے!۔۔۔‘‘
’’ایوب کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’وہ صاحب جی میں کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔جو بھی کہنا ہے گاڑی میں کہہ لینا‘‘
ایوب خوش ہوگیاکہ بات بن گئی۔گاڑی کوٹھی کے گیٹ سے جیسے ہی باہر آئی ایوب سوچنے لگا کہ بات کو کہاں سے شروع کرے؟
’’ایوب تم نے کل گاڑی سروس کروائی تھی کیا میٹ نہیں دُھلوائے تھے؟‘‘
’’دُھلوائے تھے صاحب جی۔۔۔‘‘
’’پھر یہ کیسی عجیب سی بدبو ہے گاڑی میں؟‘‘
’’بدبو ! جی وہ شاید میٹ ٹھیک طرح سے سوکھے نہیں ہوں گے؟‘‘
’’ایوب تمہارا دھیان آج کل پتہ نہیں کہاں ہوتا ہے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے!‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ‘‘(موبائل پر بیل بجی)۔۔۔’’ہیلو جی فراز صاحب کیا حال احوال ہیں؟اپنے موبائل پر آپ کی آواز سن کر اچھا لگا کہاں ہوتے ہیں جناب آج کل؟‘‘
’’بھئی! مصروفیات نے بھی کبھی بندے کی جان چھوڑی ہے؟ہاہاہاہا۔۔۔۔۔ویسے اچھا ہوا آپ سے رابطہ ہوگیا۔تہمینہ کئی دِنوں سے بھابی کے فون پر ٹرائی کر رہی تھی پر مُستقِل آف جا رہا ہے؟کہیں نمبر بدل تو نہیں لیا بھابی نے؟اچھا اچھا اِسی لئے ۔۔۔تہمینہ کہہ رہی تھی کہ بھابی سے کوئی رابِطہ نہیں ہو پایا۔خیر شام کو اب آپ لوگوں نے ہمارے ہاں ضرور آنا ہے! ہنی کی سالگِرہ ہے تمام دوستوں کو بُلایا ہے سوچا اِسی بہانے سب سے مُلاقات بھی ہو جائے گی؟نہیں نہیں فراز صاحب یہ ظلم نہ کیجئیے! بس نا کی کوئی گنجائش ہی نہیں بس شام کو مِلتے ہیں! اُوکے ٹیک کیئر بائے بائے۔۔۔۔‘‘
ایوب کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ‘‘
’’یہ اب کون ہے؟جی جناب! آپ لوگ پُہنچ گئے؟ اُو میرے بھائی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ لوگ صُبح صُبح پُہنچ جائیں گے اب آپ مُجھے نئی کہانی سُنا رہے ہیں!احمد صاحب سے میری بات کروائیں میں کچھ نہیں جانتا شام تین بجے کیڑنگ کا کام ہر حال میں مکمل ہو جانا چاہیے!اُمید ہے مُجھے اب دوبارہ آپ کو کال نہیں کرنی پڑے گی خدا حافظ!عجیب لوگ ہیں عین موقع پر آکر تنگ کرتے ہیں۔۔۔‘‘
’’صاحب جی وہ میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ‘‘ہیلو ہاں۔۔۔نہیں ابھی نہیں پُہنچے راستے میں ہیں بس پہنچنے والے ہیں۔۔کیا مطلب؟کیا یہ چیزیں شاپنگ لِسٹ میں شامل نہیں ہیں ؟چلو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں تم مُجھے ایس ایم ایس کر دو اُوکے بائے۔۔۔‘‘
’’صاحب جی میں کہہ رہا تھا ۔۔۔‘‘
’’ایوب میرا خیال ہے ہائپر سٹار سے ہی سارا سامان ہمیں مِل جائے گا دُور جانے کی کیا ضرورت ہے؟بس گاڑی ہائپر سٹار کی طرف لے چلو اور ہاں صُبح جو چیک میں نے دِیا تھا وہ کیش کروا لیا تھا تم نے؟‘‘
’’جی صاحب کیش کروا کر پیسے میں نے بیگم صاحبہ کو دے دئے تھے۔۔۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔۔۔لو بھئی تم رُکو میں بس یوں گیا اور یوں آیا۔۔۔‘‘
’’ٹرن ٹرن۔۔۔ٹرن ٹرن۔۔۔ہیلو ہاں میں صاحب کے ساتھ بازار آیا ہوں اُن کے بیٹے کی آج سالگِرہ ہے صاحب نے کچھ خریدو فروخت کرنی تھی بازار سے۔۔۔ہا ں ہاں مُجھے پتہ ہے تم ایسا کرو کسی محلے دار سے شام تک کے لئے کچھ پیسے اُدھار مانگ لو میں اب صاحب سے بات کرتا ہوں اور جلد گھر آجاؤں گا۔تم پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا!میں صاحب سے کچھ پیسے اِڈوانس مانگ لوں گا۔۔ہاں ہاں میں جلدی آجاؤں گا۔۔اُوکے بائے ‘‘ ایوب بے چینی سے صاحب کے باہر آنے کا اِنتظار کرنے لگا۔
’’ٹرن ٹرن۔۔۔۔ہیلو ہاں ۔۔۔کیا کسی سے پیسے نہیں مِل رہے؟اچھا چلو میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘
ایوب نے پریشانی کے عالم میں اپنے دوست ارشد کا نمبر ڈائل کیا۔
’’ ہیلو ارشد کیا حال ہے ۔۔ایوب بات کر رہا ہوں ۔تم اِس وقت کہاں ہو کیا لاہور سے باہر ہو؟اچھا چلو ٹھیک ہے۔نہیں نہیں ۔۔کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔بس ایک چھوٹا سا کام تھا تم سے پر چلو خیر ۔۔ اور تمہارے بچے ٹھیک ٹھاک ہیں؟اچھا چلو یہ تو اچھا ہے چلو پھر لاہور آؤ گے توملاقات ہوگی۔۔خدا حافظ!‘‘ایوب نے اپنی جیب سے رُومال نِکالا اور اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرنے لگا۔
’’ٹرن ٹرن۔۔۔صاحب کا فون ؟‘‘
ایوب نے کار پارکنگ سے ہائپر سٹار کے باہر آنے والے دروازے کی طرف دیکھا تو صاحب ٹرالی لے کر کھڑے تھے۔ایوب بھاگ کر گیا اور ٹرالی جلدی سے صاحب کے ہاتھوں سے لے لی۔بڑے بڑے بدتمیز لوگ آئے ہوتے ہیں یہاں بیوقوف کہیں کے۔۔۔ایوب بات کرنا چاہتا تھا، پر صاحب کو غصے میں دیکھ کر اُس نے کچھ دیر خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔ایوب گاڑی میں جلدی جلدی سامان رکھنے لگا۔
’’۔۔۔جلدی کرو ایوب ابھی کیک والے سے کیک بھی لینا ہے!‘‘
’’صاحب جی وہ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ‘‘
’’ہاں ایس۔ایم۔ایس مل گیا تھاسب کچھ لِسٹ کے مطابق لے لیا ہے۔۔اور ہاں کیا وہ کیڑنگ والے پُہنچ گئے؟چلو شُکر ہے مُجھے اُن کی فکر ہو رہی تھی ۔۔مُجھے ڈر تھا کہ کہیں اُن کی وجہ سے پروگرام اپ سیٹ نہ ہو جائے۔۔۔تھینک گاڈ وہ آگئے!ہم بھی تھوڑی دیر تک پُہنچ جائیں گے ۔۔بائے بائے۔‘‘
’’چلو ایوب جلدی کرو 1 تو ہمیں یہیں بج گیا ہے۔۔۔‘‘
’’صاحب جی میں کہہ رہا تھا ۔۔۔‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ۔۔۔جی شکیل صاحب شام کو مُلاقات ہو رہی ہے نہ آپ سے؟ارے کمال کرتے ہیں بُھول گئے بھئی اپنے ہنی کی سالگِرہ ہے آج؟کیا کہا نبیل بھائی آئے ہوئے ہیں امریکہ سے؟واہ کیا بات ہے تو پھر اُن کو بھی ساتھ ضرور لائیے گا اپنے ساتھ۔۔۔ ایک عرصہ ہوگیا ہے اُنہیں دیکھے۔۔دیکھیں میں تو کہوں گا کہ ہمارا ہنی لکی ہے ورنہ نبیل بھائی تو میری شادی پر آنے کا وعدہ کرکے بھی نہیں آئے تھے؟چلیں ہماری شادی پر نہ سہی ہمارے بیٹے کی سالگرہ پر ہی سہی ؟ہاہاہاہا۔۔۔ہاں ضرور چلیں شام کو مِلتے ہیں لیٹ مت ہویئے گاٹھیک ساڑھے چھ بجے پروگرام سٹارٹ ہو جائے گا!اُوکے بائے ٹیک کیئر۔۔‘‘
’’صاحب جی وہ میں۔۔۔‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں۔۔۔جی مختار صاحب کیک ریڈی ہو گیا ’تھینک یو سو مچھ‘ میں بس آپ کی شاپ کے پاس ہوں دو منٹ میں آپ کے پاس آرہا ہوں اُوکے بائے شُکر ہے کیک والے نے بھی وقت پر کیک تیار کر دیا ورنہ بڑا مسئلہ ہو جاتا!تم رُکو ایوب میں ابھی آیا ۔۔۔‘‘
ایوب نے مایوسی سے اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھا۔’’ٹھیک ہے صاحب جی اُس کی آواز کپکپا رہی تھی پر صاحب لاپرواہی سے بیکری میں داخل ہو گئے۔‘‘
’’ایوب ۔۔مختار صاحب کے مُلازم کیک لا رہے ہیں احتیاط سے گاڑی میں رکھوا لینا میں سامنے والی دُوکان سے بالوں کی تراش خراش کروا کر ابھی آیا۔۔‘‘
اِس سے پہلے کہ ایوب کچھ کہتا صاحب سڑک کراس کرکے سیلون کی طرف چلے گئے۔
’’ٹرن۔۔ ٹرن۔۔ٹرن ۔۔ٹرن ۔۔ہیلو زینت بات کو سمجھنے کی کوشش کرو میں جلدی آجاؤں گا ! بس صاحب سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا میں نے ارشد کو بھی فون کیا تھا کہ وہ تمہیں گھر میں کچھ پیسے دیتا جائے پر وہ کسی کام کی وجہ سے لاہور سے باہر گیا ہوا ہے۔۔۔میں نے کہا ناحوصلہ کرو میں جلدی آجاؤں گا ۔۔خدا حافظ!‘‘
’’دیکھو ٹینا تم فِکر نہ کرو آج ہنی کی سالگِرہ سے فارغ ہولیں پھر بناتے ہیں دُبئی جانے کا پروگرام۔۔۔اِس دفعہ ڈھیر شاپنگ کرنی ہے میں نے۔۔۔تمہاری بھابی تو ہر دفعہ کرتی ہے۔۔۔ہاہاہاہا یہ بھی ٹھیک ہے احسن کہاں ہے؟اُس سے میری بات کرواؤ۔۔۔ہیلو بابا کیسے ہو؟‘‘
صاحب گاڑی میں بیٹھ گئے گاڑی تیز رفتاری سے گھر کی جانب رواں دواں تھی۔
’’میں بھی ٹھیک ہوں کیا کر رہے ہو؟ارے واہ ہیلی کاپٹر اُڑایا جا رہا ہے؟‘‘
اڑھائی بج چُکے تھے ایوب کا فکر سے گلہ سُوکھ رہا تھا۔
’’یہ ہیلی کاپٹرکس نے لا کر دیا؟پاپا نے ؟واہ میرے جونیئر کی تو کیا بات ہے موجیں ہیں بھئی تمہارے پاپا ہیلی کاپٹر لادیتے ہیں ماما جہاز دِلا دیتی ہے؟اپنی سالگرہ پر ماموں سے کیا گِفٹ لو گے اِس مرتبہ؟بین ٹین کی گاڑی؟چلو جی پکا وعدہ اِس دفعہ بین ٹین کی گاڑی پکی۔۔۔اُوکے چلو ٹھیک ہے اب ذرا اپنی ماما سے میری بات کرواؤ۔۔۔اچھا ٹینا ۔۔بیڈ لک کہ تم آج ہنی کی سالگِرہ میں نہیں آ پاؤ گی۔۔۔خیر تمہارے سُسر کی بیماری کا معاملہ ہے ورنہ میں کبھی بھی غیر حاضری کی اِجازت نہ دیتا! چلو ٹھیک ہے بعد میں بات ہو گی ابھی کافی کام کرنے باقی ہیں۔۔۔خدا حافظ!‘‘
’’گاڑی گھر میں داخل ہوئی تو بیگم صاحبہ غصے میں آگ بگولہ ہو رہی تھیں
’’۔۔۔کمال کرتے ہیں آپ بھی اِتنا ٹائم لگا دیا ؟‘‘
ایوب یہ لو پیسے اور یہ لو لِسٹ جلدی سے مارکیٹ جاؤ اور یہ چیزیں لا دو! ۔۔۔اور مہربانی سے جلدی آنا!۔۔۔‘‘
’’بیگم صاحبہ وہ میں ۔۔۔‘‘
’’وہ میں کیا؟ جو کچھ کہا گیا ہے جلدی سے کرو مہمان آتے ہی ہوں گے ابھی تک کچھ بھی فائنل نہیں ہوا!۔۔۔‘‘
ایوب اُلٹے قدموں واپس ہوگیا اُس کی کوشش تھی کہ جلدی سے سامان لائے اور بیگم صاحبہ سے چُھٹی اور کچھ پیسے لے کر گھر چلا جائے۔لیکن جب وہ مارکیٹ سے سامان لے کر واپس آیا تو بیگم صاحبہ غصے میں لال پیلی ہو رہی تھیں۔
’’ایوب کیا مسئلہ ہے تمہارا جہاں جاتے ہو جا کر بیٹھ ہی جاتے ہو؟میری سہیلی نِدا کا کب سے فون آیا ہواہے اُس کی گاڑی خراب ہو گئی ہے جاؤ اُسے لے آؤ اور ہاں بس آنا جانا کرو ۔۔۔یہاں اور بھی بُہت سے کام ہیں کرنے والے۔۔۔‘‘
’’بیگم صاحبہ وہ میں۔۔۔‘‘
’’ پھر وہی بات جاؤ بابا جاؤ دیر ہو رہی ہے ‘‘
ایوب تیز رفتاری سے گاڑی چلاتا ہوا ڈیفنس پُہنچا مس نِدا کی کوٹھی کے سامنے جاکر اُس نے ہارن بجایا۔۔۔سیکیورٹی گارڈ نے ایوب کو دیکھ کر رُکنے کا اِشارہ کیااور پھر اندر چلا گیا۔کوئی آدھے گھنٹے کے بعد کہیں مِس نِدا گیٹ سے نمودار ہوئیں۔
’’کیسے ہو ایوب اُنہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔‘‘
پرفیوم کی خوشبو سے پوری گاڑی مُعطر ہو گئی۔
’’میں ٹھیک ہوں شُکر ہے خدا کا۔۔۔‘‘
ایوب نے بُجھے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔مِس نِدا اُس کی بات پر توجہ دیئے بغیر پرس میں سے شیشہ نِکال کر اپنا میک اپ چیک کرنے لگیں۔تمام راستے میں جگہ جگہ ٹریفک جام تھی۔موسم خاصہ ٹھنڈا تھا۔ پر ایوب کو پسینے آرہے تھے۔خیر جب وہ گھر پُہنچے تو کافی مہمان آچکے تھے۔صاحب جی تو دوستوں کی آؤ بھگت میں مصروف تھے اور بیگم صاحبہ شاید تیار ہو رہی تھیں؟ایوب پریشان تھا کہ اِتنے لوگوں میں صاحب سے کیسے پیسے مانگے اور چھٹی کی بات کرے؟
’’ٹرن ٹرن۔۔۔ہیلو زینت میں تمہیں کیا بتاؤں میں بُہت بُرا بھنس گیا ہوں اُدھر تم مُشکل میں ہو اِدھر کوئی میری بات سُننے کے لئے تیار نہیں۔۔۔سب اپنی خوشیوں میں گم ہیں مُجھ غریب پر کیا مُصیبت آن پڑی ہے کوئی سُننا نہیں چاہتا!ڈرتا ہوں پورا ایک سال فارغ رہنے کے بعد ڈرائیونگ کی یہ نوکری ہاتھ آئی ہے اگر یہ ہاتھ سے نِکل گئی تو کیا کریں گے؟بس تم دُعا کرو!۔۔۔میں نے کہا نا کوئی موقعہ ہی نہیں مِل رہا ۔۔۔میں خالی ہاتھ وہاں آکر بھلا کیا کروں گا؟کوئی پیسہ پاس ہوگا تو ڈاکٹر کے بھی جاپائیں گے؟کیا کسی مُحلے دار سے بھی پیسے نہیں مِلے؟۔۔۔اچھا ۔۔۔تم روو نہیں میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔زینت مُجھے پتہ ہے بچے کی طبیعت ٹھیک نہیں میں کوشش کر رہا ہوں جیسے ہی کوئی اِنتظام ہوتا ہے میں آتا ہوں تم حوصلہ رکھو۔۔۔خدا حافظ!۔۔‘‘
ایوب بہانے بہانے سے کئی بار صاحب جی کے پاس گیا تاکہ اپنا مدعہ بیان کر سکے لیکن ہر بار اُس کی بات کاٹ دی جاتی۔وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔باربی کیو کی خوشبو اُسے اِس وقت زہر لگ رہی تھی۔ہنستے مُسکراتے چہرے جیسے اُس کا مذاق اُڑا رہے تھے ۔کولڈ ڈرنکس اور انواع و اقسام کے کھانے چل رہے تھے پر اِس غریب کے چہرے کی بے چینی دیکھنے کا وقت کسی کے پاس نہیں تھا۔دس بجے کے قریب لوگ تحفے تحائف دے کر آہستہ آہستہ رُخصت ہونے لگے۔
’’نِدا تم غزالہ کے ساتھ چلی جاؤ گی یا میں اپنے ڈرائیور سے کہوں کہ تمہیں ڈراپ کر دے؟‘‘
’’ نہیں بُہت شکریہ غزالہ مُجھے ڈراپ کردے گی۔۔۔‘‘
تمام مہمان تقریبا جا چُکے تھے۔
’’ویری گڈ ۔۔۔یہ تو بُہت اچھی بات ہے۔۔۔ہاں ہاں ضرور صاحب فون پر باتیں کرتے ہوئے اندر چلے گئے۔کیڑنگ والے لڑکے برتن اُٹھا رہے تھے۔
’’بیگم صاحبہ وہ میں کہہ رہا تھاکہ۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ایوب بولو کیا بات ہے جلدی بتاؤ؟‘‘
’’بیگم صاحبہ میرا بیٹا بُہت سخت بیمار ہے میں نے اُسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے۔۔۔‘‘
’’اُو یہ تو بُہت بُرا ہوا تم نے بتایا ہی نہیں؟خدا اُسے صحت دے!۔۔۔‘‘
’’بیگم صاحبہ اگر پانچ سو روپے ایڈوانس مِل جاتے تو؟‘‘
’’ایوب اِس وقت تو ہم بالکل خالی ہو چکے ہیں۔۔۔ تمہارے سامنے صُبح سے اِتنے پیسے لگ گئے ہیں۔۔۔پانچ سو تو کیا اِس وقت سو روپے بھی نہیں پرس میں۔۔۔تم جانتے ہو ہم خود مُلازم پیشہ لوگ ہیں ہمارے پاس اِتنی وا فر رقم بھلا کہاں ہوتی ہے؟مُجھے افسوس ہے کہ اِس وقت ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکیں گے‘‘
ایوب کا دِل بیٹھ گیا۔
’’اور ہاں صُبح جلدی آجانا تمہارے صاحب نے اِسلام آباد کے لئے روانہ ہونا ہے سمجھے لیٹ نہ کروا دینا اُنہیں!‘‘
یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئیں۔ایوب کے پیروں تلے سے توجیسے زمین نِکل گئی تھی۔وہ بوجھل قدموں سے چوکیدار کی طرف بڑھا اور اُس سے پانچ سو روپے کی مانگ کی؟
’’ایوب بھائی آپ کیوں شرمندہ کرتے ہو اگر میرے پاس ہوتے تو میں آپ کو پہلے ہی دے دیتا ۔آپ کو مُجھ سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑتی!۔۔۔میں نے کل ہی اپنی ساری تنخواہ اپنے گھر ایزی پیسہ کروائی ہے ۔میں آپ سے شرمِندہ ہوں کہ آپ کے کام نہیں آسکا۔۔۔‘‘
’’نہیں کوئی بات نہیں، ایوب نے پریشانی کے عالم میں چوکیدار کا شُکریہ ادا کیا۔ایوب بھائی آپ نے بیگم صاحبہ سے بات نہیں کی؟ہاں کی ہے پر اُنہوں نے توپیسے دینے کی بجائے دُعا دے کر رُخصت کر دِیا۔‘‘
چوکیدار حیرت سے ایوب کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اُس نے عالیشان کوٹھی میں رہنے والے بے حس لوگوں کی بے حسی پر افسوس کرتے ہوئے کہا
’’۔۔۔ایوب بھائی اگر ہمارا کوئی بھائی یا بہن ہو اور اُن کو روزانہ روٹی کی کمی ہو اور ہم میں سے کوئی اُن سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جاؤ گرم اور سیر رہو۔۔۔مگر جو چیزیں تن کے لئے درکار ہیں وہ اُنہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟میرے خدا کیسا زمانہ آگیا ہے جہاں اِنسان کسی دوسرے اِنسان کی مدد کرنے کی اِستطاعت رکھتے ہوئے بھی مدد نہیں کرتا۔۔۔توبہ
توبہ!۔۔۔‘‘
ایوب نے اپنی سائیکل پکڑی اور بُجھے ہوئے دِل کے ساتھ گھر کی طرف چل دِیا ۔اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔اُس کے گھر تک کا سفر کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔اُس کے دِل میں بُرے بُرے خیال آرہے تھے۔اگلی صُبح وہ صاحب کو اِسلام آباد نہیں لے جا سکا کیونکہ اُس نے اپنے بیٹے کو قبرستان لے جانا تھا۔۔۔۔۔ختم شد!
’’ہاں ہاں ٹھیک ہے اُوکے بائے۔۔۔‘‘
ایوب کے چہرے سے پریشانی چھلک رہی تھی۔
’’ہاں بھئی! ایوب گاڑی تیار ہوگئی؟جی صاحب جی۔۔۔‘‘
’’چلو ہمیں آج بہت کام کرنے ہیں تمہاری بیگم صاحبہ نے آج تو بُہت لمبی لِسٹ بنا دی ہے چیزوں کی۔۔۔ہنی کی سالگِرہ کے لئے اِتنے سارے مہمان بُلا لئے ہیں آرڈر ہے کہ ۔۔۔ شام چار بجے تک سب تیاریاں مکمل ہو جانی چاہیں!ایک تو کیڑنگ والے بھی ابھی تک نہیں پُہنچے!۔۔۔‘‘
’’ایوب کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
’’وہ صاحب جی میں کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔جو بھی کہنا ہے گاڑی میں کہہ لینا‘‘
ایوب خوش ہوگیاکہ بات بن گئی۔گاڑی کوٹھی کے گیٹ سے جیسے ہی باہر آئی ایوب سوچنے لگا کہ بات کو کہاں سے شروع کرے؟
’’ایوب تم نے کل گاڑی سروس کروائی تھی کیا میٹ نہیں دُھلوائے تھے؟‘‘
’’دُھلوائے تھے صاحب جی۔۔۔‘‘
’’پھر یہ کیسی عجیب سی بدبو ہے گاڑی میں؟‘‘
’’بدبو ! جی وہ شاید میٹ ٹھیک طرح سے سوکھے نہیں ہوں گے؟‘‘
’’ایوب تمہارا دھیان آج کل پتہ نہیں کہاں ہوتا ہے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے!‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ‘‘(موبائل پر بیل بجی)۔۔۔’’ہیلو جی فراز صاحب کیا حال احوال ہیں؟اپنے موبائل پر آپ کی آواز سن کر اچھا لگا کہاں ہوتے ہیں جناب آج کل؟‘‘
’’بھئی! مصروفیات نے بھی کبھی بندے کی جان چھوڑی ہے؟ہاہاہاہا۔۔۔۔۔ویسے اچھا ہوا آپ سے رابطہ ہوگیا۔تہمینہ کئی دِنوں سے بھابی کے فون پر ٹرائی کر رہی تھی پر مُستقِل آف جا رہا ہے؟کہیں نمبر بدل تو نہیں لیا بھابی نے؟اچھا اچھا اِسی لئے ۔۔۔تہمینہ کہہ رہی تھی کہ بھابی سے کوئی رابِطہ نہیں ہو پایا۔خیر شام کو اب آپ لوگوں نے ہمارے ہاں ضرور آنا ہے! ہنی کی سالگِرہ ہے تمام دوستوں کو بُلایا ہے سوچا اِسی بہانے سب سے مُلاقات بھی ہو جائے گی؟نہیں نہیں فراز صاحب یہ ظلم نہ کیجئیے! بس نا کی کوئی گنجائش ہی نہیں بس شام کو مِلتے ہیں! اُوکے ٹیک کیئر بائے بائے۔۔۔۔‘‘
ایوب کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ‘‘
’’یہ اب کون ہے؟جی جناب! آپ لوگ پُہنچ گئے؟ اُو میرے بھائی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ لوگ صُبح صُبح پُہنچ جائیں گے اب آپ مُجھے نئی کہانی سُنا رہے ہیں!احمد صاحب سے میری بات کروائیں میں کچھ نہیں جانتا شام تین بجے کیڑنگ کا کام ہر حال میں مکمل ہو جانا چاہیے!اُمید ہے مُجھے اب دوبارہ آپ کو کال نہیں کرنی پڑے گی خدا حافظ!عجیب لوگ ہیں عین موقع پر آکر تنگ کرتے ہیں۔۔۔‘‘
’’صاحب جی وہ میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ‘‘ہیلو ہاں۔۔۔نہیں ابھی نہیں پُہنچے راستے میں ہیں بس پہنچنے والے ہیں۔۔کیا مطلب؟کیا یہ چیزیں شاپنگ لِسٹ میں شامل نہیں ہیں ؟چلو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں تم مُجھے ایس ایم ایس کر دو اُوکے بائے۔۔۔‘‘
’’صاحب جی میں کہہ رہا تھا ۔۔۔‘‘
’’ایوب میرا خیال ہے ہائپر سٹار سے ہی سارا سامان ہمیں مِل جائے گا دُور جانے کی کیا ضرورت ہے؟بس گاڑی ہائپر سٹار کی طرف لے چلو اور ہاں صُبح جو چیک میں نے دِیا تھا وہ کیش کروا لیا تھا تم نے؟‘‘
’’جی صاحب کیش کروا کر پیسے میں نے بیگم صاحبہ کو دے دئے تھے۔۔۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔۔۔لو بھئی تم رُکو میں بس یوں گیا اور یوں آیا۔۔۔‘‘
’’ٹرن ٹرن۔۔۔ٹرن ٹرن۔۔۔ہیلو ہاں میں صاحب کے ساتھ بازار آیا ہوں اُن کے بیٹے کی آج سالگِرہ ہے صاحب نے کچھ خریدو فروخت کرنی تھی بازار سے۔۔۔ہا ں ہاں مُجھے پتہ ہے تم ایسا کرو کسی محلے دار سے شام تک کے لئے کچھ پیسے اُدھار مانگ لو میں اب صاحب سے بات کرتا ہوں اور جلد گھر آجاؤں گا۔تم پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا!میں صاحب سے کچھ پیسے اِڈوانس مانگ لوں گا۔۔ہاں ہاں میں جلدی آجاؤں گا۔۔اُوکے بائے ‘‘ ایوب بے چینی سے صاحب کے باہر آنے کا اِنتظار کرنے لگا۔
’’ٹرن ٹرن۔۔۔۔ہیلو ہاں ۔۔۔کیا کسی سے پیسے نہیں مِل رہے؟اچھا چلو میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘
ایوب نے پریشانی کے عالم میں اپنے دوست ارشد کا نمبر ڈائل کیا۔
’’ ہیلو ارشد کیا حال ہے ۔۔ایوب بات کر رہا ہوں ۔تم اِس وقت کہاں ہو کیا لاہور سے باہر ہو؟اچھا چلو ٹھیک ہے۔نہیں نہیں ۔۔کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔بس ایک چھوٹا سا کام تھا تم سے پر چلو خیر ۔۔ اور تمہارے بچے ٹھیک ٹھاک ہیں؟اچھا چلو یہ تو اچھا ہے چلو پھر لاہور آؤ گے توملاقات ہوگی۔۔خدا حافظ!‘‘ایوب نے اپنی جیب سے رُومال نِکالا اور اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کرنے لگا۔
’’ٹرن ٹرن۔۔۔صاحب کا فون ؟‘‘
ایوب نے کار پارکنگ سے ہائپر سٹار کے باہر آنے والے دروازے کی طرف دیکھا تو صاحب ٹرالی لے کر کھڑے تھے۔ایوب بھاگ کر گیا اور ٹرالی جلدی سے صاحب کے ہاتھوں سے لے لی۔بڑے بڑے بدتمیز لوگ آئے ہوتے ہیں یہاں بیوقوف کہیں کے۔۔۔ایوب بات کرنا چاہتا تھا، پر صاحب کو غصے میں دیکھ کر اُس نے کچھ دیر خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔ایوب گاڑی میں جلدی جلدی سامان رکھنے لگا۔
’’۔۔۔جلدی کرو ایوب ابھی کیک والے سے کیک بھی لینا ہے!‘‘
’’صاحب جی وہ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ‘‘
’’ہاں ایس۔ایم۔ایس مل گیا تھاسب کچھ لِسٹ کے مطابق لے لیا ہے۔۔اور ہاں کیا وہ کیڑنگ والے پُہنچ گئے؟چلو شُکر ہے مُجھے اُن کی فکر ہو رہی تھی ۔۔مُجھے ڈر تھا کہ کہیں اُن کی وجہ سے پروگرام اپ سیٹ نہ ہو جائے۔۔۔تھینک گاڈ وہ آگئے!ہم بھی تھوڑی دیر تک پُہنچ جائیں گے ۔۔بائے بائے۔‘‘
’’چلو ایوب جلدی کرو 1 تو ہمیں یہیں بج گیا ہے۔۔۔‘‘
’’صاحب جی میں کہہ رہا تھا ۔۔۔‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں ۔۔۔جی شکیل صاحب شام کو مُلاقات ہو رہی ہے نہ آپ سے؟ارے کمال کرتے ہیں بُھول گئے بھئی اپنے ہنی کی سالگِرہ ہے آج؟کیا کہا نبیل بھائی آئے ہوئے ہیں امریکہ سے؟واہ کیا بات ہے تو پھر اُن کو بھی ساتھ ضرور لائیے گا اپنے ساتھ۔۔۔ ایک عرصہ ہوگیا ہے اُنہیں دیکھے۔۔دیکھیں میں تو کہوں گا کہ ہمارا ہنی لکی ہے ورنہ نبیل بھائی تو میری شادی پر آنے کا وعدہ کرکے بھی نہیں آئے تھے؟چلیں ہماری شادی پر نہ سہی ہمارے بیٹے کی سالگرہ پر ہی سہی ؟ہاہاہاہا۔۔۔ہاں ضرور چلیں شام کو مِلتے ہیں لیٹ مت ہویئے گاٹھیک ساڑھے چھ بجے پروگرام سٹارٹ ہو جائے گا!اُوکے بائے ٹیک کیئر۔۔‘‘
’’صاحب جی وہ میں۔۔۔‘‘
’’جانے کہاں گئے وہ دِن کہتے تھے تیری یاد میں۔۔۔جی مختار صاحب کیک ریڈی ہو گیا ’تھینک یو سو مچھ‘ میں بس آپ کی شاپ کے پاس ہوں دو منٹ میں آپ کے پاس آرہا ہوں اُوکے بائے شُکر ہے کیک والے نے بھی وقت پر کیک تیار کر دیا ورنہ بڑا مسئلہ ہو جاتا!تم رُکو ایوب میں ابھی آیا ۔۔۔‘‘
ایوب نے مایوسی سے اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھا۔’’ٹھیک ہے صاحب جی اُس کی آواز کپکپا رہی تھی پر صاحب لاپرواہی سے بیکری میں داخل ہو گئے۔‘‘
’’ایوب ۔۔مختار صاحب کے مُلازم کیک لا رہے ہیں احتیاط سے گاڑی میں رکھوا لینا میں سامنے والی دُوکان سے بالوں کی تراش خراش کروا کر ابھی آیا۔۔‘‘
اِس سے پہلے کہ ایوب کچھ کہتا صاحب سڑک کراس کرکے سیلون کی طرف چلے گئے۔
’’ٹرن۔۔ ٹرن۔۔ٹرن ۔۔ٹرن ۔۔ہیلو زینت بات کو سمجھنے کی کوشش کرو میں جلدی آجاؤں گا ! بس صاحب سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا میں نے ارشد کو بھی فون کیا تھا کہ وہ تمہیں گھر میں کچھ پیسے دیتا جائے پر وہ کسی کام کی وجہ سے لاہور سے باہر گیا ہوا ہے۔۔۔میں نے کہا ناحوصلہ کرو میں جلدی آجاؤں گا ۔۔خدا حافظ!‘‘
’’دیکھو ٹینا تم فِکر نہ کرو آج ہنی کی سالگِرہ سے فارغ ہولیں پھر بناتے ہیں دُبئی جانے کا پروگرام۔۔۔اِس دفعہ ڈھیر شاپنگ کرنی ہے میں نے۔۔۔تمہاری بھابی تو ہر دفعہ کرتی ہے۔۔۔ہاہاہاہا یہ بھی ٹھیک ہے احسن کہاں ہے؟اُس سے میری بات کرواؤ۔۔۔ہیلو بابا کیسے ہو؟‘‘
صاحب گاڑی میں بیٹھ گئے گاڑی تیز رفتاری سے گھر کی جانب رواں دواں تھی۔
’’میں بھی ٹھیک ہوں کیا کر رہے ہو؟ارے واہ ہیلی کاپٹر اُڑایا جا رہا ہے؟‘‘
اڑھائی بج چُکے تھے ایوب کا فکر سے گلہ سُوکھ رہا تھا۔
’’یہ ہیلی کاپٹرکس نے لا کر دیا؟پاپا نے ؟واہ میرے جونیئر کی تو کیا بات ہے موجیں ہیں بھئی تمہارے پاپا ہیلی کاپٹر لادیتے ہیں ماما جہاز دِلا دیتی ہے؟اپنی سالگرہ پر ماموں سے کیا گِفٹ لو گے اِس مرتبہ؟بین ٹین کی گاڑی؟چلو جی پکا وعدہ اِس دفعہ بین ٹین کی گاڑی پکی۔۔۔اُوکے چلو ٹھیک ہے اب ذرا اپنی ماما سے میری بات کرواؤ۔۔۔اچھا ٹینا ۔۔بیڈ لک کہ تم آج ہنی کی سالگِرہ میں نہیں آ پاؤ گی۔۔۔خیر تمہارے سُسر کی بیماری کا معاملہ ہے ورنہ میں کبھی بھی غیر حاضری کی اِجازت نہ دیتا! چلو ٹھیک ہے بعد میں بات ہو گی ابھی کافی کام کرنے باقی ہیں۔۔۔خدا حافظ!‘‘
’’گاڑی گھر میں داخل ہوئی تو بیگم صاحبہ غصے میں آگ بگولہ ہو رہی تھیں
’’۔۔۔کمال کرتے ہیں آپ بھی اِتنا ٹائم لگا دیا ؟‘‘
ایوب یہ لو پیسے اور یہ لو لِسٹ جلدی سے مارکیٹ جاؤ اور یہ چیزیں لا دو! ۔۔۔اور مہربانی سے جلدی آنا!۔۔۔‘‘
’’بیگم صاحبہ وہ میں ۔۔۔‘‘
’’وہ میں کیا؟ جو کچھ کہا گیا ہے جلدی سے کرو مہمان آتے ہی ہوں گے ابھی تک کچھ بھی فائنل نہیں ہوا!۔۔۔‘‘
ایوب اُلٹے قدموں واپس ہوگیا اُس کی کوشش تھی کہ جلدی سے سامان لائے اور بیگم صاحبہ سے چُھٹی اور کچھ پیسے لے کر گھر چلا جائے۔لیکن جب وہ مارکیٹ سے سامان لے کر واپس آیا تو بیگم صاحبہ غصے میں لال پیلی ہو رہی تھیں۔
’’ایوب کیا مسئلہ ہے تمہارا جہاں جاتے ہو جا کر بیٹھ ہی جاتے ہو؟میری سہیلی نِدا کا کب سے فون آیا ہواہے اُس کی گاڑی خراب ہو گئی ہے جاؤ اُسے لے آؤ اور ہاں بس آنا جانا کرو ۔۔۔یہاں اور بھی بُہت سے کام ہیں کرنے والے۔۔۔‘‘
’’بیگم صاحبہ وہ میں۔۔۔‘‘
’’ پھر وہی بات جاؤ بابا جاؤ دیر ہو رہی ہے ‘‘
ایوب تیز رفتاری سے گاڑی چلاتا ہوا ڈیفنس پُہنچا مس نِدا کی کوٹھی کے سامنے جاکر اُس نے ہارن بجایا۔۔۔سیکیورٹی گارڈ نے ایوب کو دیکھ کر رُکنے کا اِشارہ کیااور پھر اندر چلا گیا۔کوئی آدھے گھنٹے کے بعد کہیں مِس نِدا گیٹ سے نمودار ہوئیں۔
’’کیسے ہو ایوب اُنہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔‘‘
پرفیوم کی خوشبو سے پوری گاڑی مُعطر ہو گئی۔
’’میں ٹھیک ہوں شُکر ہے خدا کا۔۔۔‘‘
ایوب نے بُجھے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔مِس نِدا اُس کی بات پر توجہ دیئے بغیر پرس میں سے شیشہ نِکال کر اپنا میک اپ چیک کرنے لگیں۔تمام راستے میں جگہ جگہ ٹریفک جام تھی۔موسم خاصہ ٹھنڈا تھا۔ پر ایوب کو پسینے آرہے تھے۔خیر جب وہ گھر پُہنچے تو کافی مہمان آچکے تھے۔صاحب جی تو دوستوں کی آؤ بھگت میں مصروف تھے اور بیگم صاحبہ شاید تیار ہو رہی تھیں؟ایوب پریشان تھا کہ اِتنے لوگوں میں صاحب سے کیسے پیسے مانگے اور چھٹی کی بات کرے؟
’’ٹرن ٹرن۔۔۔ہیلو زینت میں تمہیں کیا بتاؤں میں بُہت بُرا بھنس گیا ہوں اُدھر تم مُشکل میں ہو اِدھر کوئی میری بات سُننے کے لئے تیار نہیں۔۔۔سب اپنی خوشیوں میں گم ہیں مُجھ غریب پر کیا مُصیبت آن پڑی ہے کوئی سُننا نہیں چاہتا!ڈرتا ہوں پورا ایک سال فارغ رہنے کے بعد ڈرائیونگ کی یہ نوکری ہاتھ آئی ہے اگر یہ ہاتھ سے نِکل گئی تو کیا کریں گے؟بس تم دُعا کرو!۔۔۔میں نے کہا نا کوئی موقعہ ہی نہیں مِل رہا ۔۔۔میں خالی ہاتھ وہاں آکر بھلا کیا کروں گا؟کوئی پیسہ پاس ہوگا تو ڈاکٹر کے بھی جاپائیں گے؟کیا کسی مُحلے دار سے بھی پیسے نہیں مِلے؟۔۔۔اچھا ۔۔۔تم روو نہیں میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔زینت مُجھے پتہ ہے بچے کی طبیعت ٹھیک نہیں میں کوشش کر رہا ہوں جیسے ہی کوئی اِنتظام ہوتا ہے میں آتا ہوں تم حوصلہ رکھو۔۔۔خدا حافظ!۔۔‘‘
ایوب بہانے بہانے سے کئی بار صاحب جی کے پاس گیا تاکہ اپنا مدعہ بیان کر سکے لیکن ہر بار اُس کی بات کاٹ دی جاتی۔وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔باربی کیو کی خوشبو اُسے اِس وقت زہر لگ رہی تھی۔ہنستے مُسکراتے چہرے جیسے اُس کا مذاق اُڑا رہے تھے ۔کولڈ ڈرنکس اور انواع و اقسام کے کھانے چل رہے تھے پر اِس غریب کے چہرے کی بے چینی دیکھنے کا وقت کسی کے پاس نہیں تھا۔دس بجے کے قریب لوگ تحفے تحائف دے کر آہستہ آہستہ رُخصت ہونے لگے۔
’’نِدا تم غزالہ کے ساتھ چلی جاؤ گی یا میں اپنے ڈرائیور سے کہوں کہ تمہیں ڈراپ کر دے؟‘‘
’’ نہیں بُہت شکریہ غزالہ مُجھے ڈراپ کردے گی۔۔۔‘‘
تمام مہمان تقریبا جا چُکے تھے۔
’’ویری گڈ ۔۔۔یہ تو بُہت اچھی بات ہے۔۔۔ہاں ہاں ضرور صاحب فون پر باتیں کرتے ہوئے اندر چلے گئے۔کیڑنگ والے لڑکے برتن اُٹھا رہے تھے۔
’’بیگم صاحبہ وہ میں کہہ رہا تھاکہ۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ایوب بولو کیا بات ہے جلدی بتاؤ؟‘‘
’’بیگم صاحبہ میرا بیٹا بُہت سخت بیمار ہے میں نے اُسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے۔۔۔‘‘
’’اُو یہ تو بُہت بُرا ہوا تم نے بتایا ہی نہیں؟خدا اُسے صحت دے!۔۔۔‘‘
’’بیگم صاحبہ اگر پانچ سو روپے ایڈوانس مِل جاتے تو؟‘‘
’’ایوب اِس وقت تو ہم بالکل خالی ہو چکے ہیں۔۔۔ تمہارے سامنے صُبح سے اِتنے پیسے لگ گئے ہیں۔۔۔پانچ سو تو کیا اِس وقت سو روپے بھی نہیں پرس میں۔۔۔تم جانتے ہو ہم خود مُلازم پیشہ لوگ ہیں ہمارے پاس اِتنی وا فر رقم بھلا کہاں ہوتی ہے؟مُجھے افسوس ہے کہ اِس وقت ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکیں گے‘‘
ایوب کا دِل بیٹھ گیا۔
’’اور ہاں صُبح جلدی آجانا تمہارے صاحب نے اِسلام آباد کے لئے روانہ ہونا ہے سمجھے لیٹ نہ کروا دینا اُنہیں!‘‘
یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئیں۔ایوب کے پیروں تلے سے توجیسے زمین نِکل گئی تھی۔وہ بوجھل قدموں سے چوکیدار کی طرف بڑھا اور اُس سے پانچ سو روپے کی مانگ کی؟
’’ایوب بھائی آپ کیوں شرمندہ کرتے ہو اگر میرے پاس ہوتے تو میں آپ کو پہلے ہی دے دیتا ۔آپ کو مُجھ سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑتی!۔۔۔میں نے کل ہی اپنی ساری تنخواہ اپنے گھر ایزی پیسہ کروائی ہے ۔میں آپ سے شرمِندہ ہوں کہ آپ کے کام نہیں آسکا۔۔۔‘‘
’’نہیں کوئی بات نہیں، ایوب نے پریشانی کے عالم میں چوکیدار کا شُکریہ ادا کیا۔ایوب بھائی آپ نے بیگم صاحبہ سے بات نہیں کی؟ہاں کی ہے پر اُنہوں نے توپیسے دینے کی بجائے دُعا دے کر رُخصت کر دِیا۔‘‘
چوکیدار حیرت سے ایوب کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اُس نے عالیشان کوٹھی میں رہنے والے بے حس لوگوں کی بے حسی پر افسوس کرتے ہوئے کہا
’’۔۔۔ایوب بھائی اگر ہمارا کوئی بھائی یا بہن ہو اور اُن کو روزانہ روٹی کی کمی ہو اور ہم میں سے کوئی اُن سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جاؤ گرم اور سیر رہو۔۔۔مگر جو چیزیں تن کے لئے درکار ہیں وہ اُنہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟میرے خدا کیسا زمانہ آگیا ہے جہاں اِنسان کسی دوسرے اِنسان کی مدد کرنے کی اِستطاعت رکھتے ہوئے بھی مدد نہیں کرتا۔۔۔توبہ
توبہ!۔۔۔‘‘
ایوب نے اپنی سائیکل پکڑی اور بُجھے ہوئے دِل کے ساتھ گھر کی طرف چل دِیا ۔اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔اُس کے گھر تک کا سفر کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔اُس کے دِل میں بُرے بُرے خیال آرہے تھے۔اگلی صُبح وہ صاحب کو اِسلام آباد نہیں لے جا سکا کیونکہ اُس نے اپنے بیٹے کو قبرستان لے جانا تھا۔۔۔۔۔ختم شد!
No comments:
Post a Comment